بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادا شدہ ٹیکس کی رسید کو فروخت کرکے نفع کمانے کا حکم


سوال

سعودی عرب میں ایسا قانون ہے کہ جب کوئی دکان دار کوئی چیز خریدتا ہے تو اس پر 100فیصد میں سے 15 فیصد ٹیکس جمع کرانا لازم ہوتا ہے یعنی ایک لاکھ میں سے 15ہزار روپے ٹیکس دینا لازم ہوگا، تو جب کوئی گاہک ایک لاکھ کا سودا کرلیتا ہے تو وہ 15ہزار ٹیکس کے پیسے دکان دار کو دیدیتا ہے، پھر آگے اسی دکان دار پر لازم ہوتا ہے کہ وہی گاہک کا ادا شدہ ٹیکس (اس کا رسید جس کو سعودیہ میں فاتورہ کہتے ہے) حکومت کو جمع کرے، لیکن بسا اوقات بعض دکان دار حضرات یہی گاہک کا ادا شدہ ٹیکس آگے حکومت کو جمع نہیں کراتے  یا تو کسی عذر کی وجہ سے یا دکان کا کفیل وہی ٹیکس دھوکہ کی وجہ سے جمع نہیں کراتا  یا سستی کی وجہ سے جمع نہیں کراتا، تو ایسی صورت میں یہی دکان دار جس کے پاس 15 ہزار پیسے کا "فاتورہ" یعنی ٹیکس کی رسید ہوتی ہے اسے آگے کسی اور دکان دار پر مثلاً 7000 یا کچھ کم یا زیادہ یعنی جتنے پر بھی دونوں کا اتفاق ہوجاتا ہے تو اسے فروخت کر لیتا ہے، تو چونکہ یہی ٹیکس کی رسید 15 ہزار کی ہوتی ہے جسے بعد میں کوئی دکان دار 7000 پر لیتا ہے، ، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ ٹیکس کی رسید کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے؟ واضح رہے کہ مذکورہ ٹیکس فروخت کرنے سے متعاقدین میں سے ہر ایک کا فائدہ ہوتاہے، مثلا جس کے پاس ٹیکس کی رسید تھی اس پر تو یہ لازم تھا کہ اسے حکومت میں جمع کرے لیکن اس نے جمع کرنے کے بجائے کسی دوسرے شخص پر فروخت کرلیا، جس کی وجہ سے اسے فری میں مثلا 7000 کا منافع ملا اور جس نے خریدا اس کو اس وجہ سے فائدہ ہوا کہ اس کو 15ہزار کی ٹیکس کا رسید 7000 میں ملا، جس کے بعد وہ آسانی سے جاکر اسے آگے حکومت کے پاس جمع کراسکتا ہے۔

جواب

گاہگ کے ادا شدہ ٹیکس کی رسید (فاتورہ) مال نہیں ہے، بلکہ گاہگ کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی کی دستاویز ہے، لہذا صرف ٹیکس رسید کو فروخت کرنا اور اس پر نفع کمانا جائز نہیں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وعبارة الصيرفية هكذا سئل عن بيع الخط قال: لا يجوز؛ لأنه لا يخلو إما إن باع ما فيه أو عين الخط لا وجه للأول؛ لأنه بيع ما ليس عنده ولا وجه للثاني؛ لأن هذا القدر من الكاغد ليس متقوما".

(کتاب البیوع، ج:4، ص:517، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها".

(کتاب البیوع، ج:4، ص:518، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں