میں نے 2013 ء میں اسٹیٹ لائف نامی کمپنی سے تقریباً بیس سال کی انشورنس پالیسی لی ، جس میں سے چھ سات قسطیں میں نے ادا کی ہیں ، جس کی مجموعی رقم تقریباً دو لاکھ بیس ہزار بنتی ہے ، اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ ناجائز ہے ، اب مجھے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ ناجائز ہے۔اب بیس سالہ مدت پوری ہونے میں تقریبا گیارہ بارہ سال باقی ہیں ۔
کیا میرے لیے اپنی لگائی ہوئی رقم کے حصول کیلئے مزید قسطیں ادا کرنے کی گنجائش ہے ؟جبکہ مزید قسطیں ادا نہ کرنے کی صورت میں یہ رقم بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔
واضح رہے کہ انشورنس کمپنی کے معاملات سود اور قمار پر مشتمل ہوتے ہیں؛ اس لیے کسی بھی انشورنس کمپنی سے کوئی پالیسی لینا / معاہدہ کرنا / لیے ہوئے پالیسی کو جاری رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے ؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل لا علمی میں انشورنس کمپنی سے جو پالیسی لے چکا ہےاور اب اس کو معلوم ہو ا کہ یہ معاملہ ناجائز ہے تو سائل اس کو فوراً ختم کر وا دے ، ادا شدہ قسطوں کے حصول کیلئے مزید قسطیں ادا کرتے ہوئے پالیسی کو جاری رکھنا جائز نہیں ہے ۔
قرآن کریم میں ہے:
﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوآ اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَآءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّٰهُ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خٰلِدُونَ﴾ [البقرة:۲۷۵ ]
﴿يَآأَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾(المائدة: ۹۰)
احکام القرآن میں ہے:
"ولا خلاف بین أهل العلم في تحریم القمار".
(أحکام القرآن للجصاص : 540/1 ، ط : قدیمي کتب خانه)
حدیث شریف میں ہے:
"عن جابر قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."
(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکله : ۳ / ۱۲۱۹ ، ط : داراحیاءالتراث العربی)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً ؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص۔"
(کتاب الحظر و الإباحة ، فصل في البیع : 6 / 403 ، ط : سعید)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100831
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن