بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اچانک استعفیٰ دینے کی صورت میں ادارے کا اپنے استاذ کی تنخواہ نہ دینا


سوال

میں ایک پرائیوٹ سکول ٹیچر ہوں ہمارے سکول میں استاد کو بھرتی کرتے وقت ایک شرط یہ ہے کہ استاد اگر سکول چھوڑنا چاہتا ہے تو اسے سات دن پہلے انتظامیہ کو تحریری طور پر آگاہ کرنا ہوگا ۔میں نے سترہ جولائی کو انتظامیہ کو بتائے بغیر سکول چھوڑ دیا اب سکول پرنسپل مجھے میرے سترہ دنوں کا معاوضہ نہیں دے رہا ہے، کہہ رہا ہے کہ آپ نے اطلاع دیے بغیر سکول کیوں چھوڑا ،کیا ان سترہ دنوں کی تنخواہ میرا حق بنتا ہے یا نہیں؟

جواب

 ادارہ اور اساتذہ کے درمیان عقد اجارہ جب  ماہانہ یا سالانہ  تنخواہ کی بنیاد پر  طے ہو تو مدت اجارہ مکمل ہونے کی صورت میں دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ کام جاری رکھنے کا پابند نہیں ہے،اور مقررہ مدت پورا ہونے سے پہلے کسی معتبر ومعقول عذر کے بغیر کسی  کے لیے عقدِ اِجارہ فسخ کرنا جائزنہیں ۔

باقی  بچوں کے اسباق میں حرج سے بچنے کے لیے اساتذہ کا تقرر اس شرط پر کرنا کہ اگر  اساتذہ مزید کام کرنا نہیں چاہتے تواستعفی دینے سے ایک ماہ یا ایک ہفتہ  قبل ادارہ کو مطلع کرنے کے پابند ہوں  گے ،یہ شرط (اگرچہ  عرف کے اعتبار سے ) شرعًا جائز ہے  اور  اس شرط  کی بنیاد پر  اساتذہ  ادارہ چھوڑنے سے پہلے پیشگی  اطلاع کرنے کے پابند ہوتے ہیں،لیکن اس شرط کی خلاف ورزی کی بنیاد پر ادارہ کا اپنے استاذ  کی(جتنے ایام اس نے کام کیا ہےان ایام  کی) تنخواہ   روکنا/ ضبط کرنا شرعًا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی مراعات جو اساتذہ کے لیے مختص ہوں ، ان مراعات سے اس استاذ کو ان کی بے ضابطگی پر محروم کیا جا سکتا ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"و تكون الإجارة صحيحة بالشروط الآتية والشروط فيها معتبرة:1 - إذا كانت مما يقتضيه العقد.2 - إذا كانت متعارفةً.

وتكون الإجارة صحيحة مع الشرط الآتي والشرط لغو.1 - إذا لم يكن فيه نفع لأحد العاقدين.

وتكون الإجارة فاسدة إذا وقع فيه شرط مفسد للبيع."

(الکتاب الثانی الاجارۃ،الباب الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالإجارة،الفصل الرابع في فساد الإجارة وبطلانها،ج1،ص511،ط؛دار الجیل)

وفیہ ایضاً:

"(المادة 469) تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة مثلا لو استأجر أحد دابة على أن يركبها إلى محل ثم ركبها ووصل إلى ذلك المحل يستحق آجرها الأجرة.

تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة أي باستيفاء المنفعة المعقود عليها في الإجارة كلها أو بعضها أو إيفاء الأجير العمل الذي استؤجر لأجله وإتمامه؛ لأنه بذلك تتحقق المساواة وتلزم الأجرة سواء أكانت الإجارة صحيحة أو فاسدة، إلا أنه يلزم في الإجارة الصحيحة الأجر المسمى وفي الإجارة الفاسدة أجر المثل."

(الکتاب الثانی الاجارۃ،الباب الثالث في بيان مسائل تتعلق بالأجرة،الفصل الثاني المسائل المتعلقة بسبب لزوم الأجرة،ج1،ص532،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں