بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اچھا قرآن پڑھنے والا داڑھی منڈا ہو اور دوسرا شخص باشرع ہو تو امامت کا حق دار کون ہوگا؟


سوال

ایک مدرسہ ہے  جس  میں امام عالم ہے اور وہ اپنی جماعت کراتا ہے،  لیکن جب وہ  اپنے گھر جاتا ہے ایک دن کے لیے تو پیچھے کوئی نہیں رہتا تھا اس کے مقابلے والا بندہ ۔ اب سوال یہ ہے کہ  تین بندے ہیں:

  ایک بہت بڑا  استاد  و حاجی ہے،  بہت بڑی داڑھی بھی ہے اور  وہ نیک اخلاق بھی  ہے، اچھا بھی ہے،  وہ نماز پڑھا سکتا ہے اور اچھی  خاصی جانکاری بھی ہے اسلام کی، لیکن اس کو  ایک حافظ کے مقابلے میں صحیح سے پڑھنا نہیں آتا۔   

دوسرا بندہ ایسا ہے جو ایک یونیورسٹی کا طالب علم ہے  اور اسی مدرسے میں 18 پارہ یاد کیے تھے ، لیکن ابھی اسے وہ اٹھارہ پارے صحیح سے یاد نہیں ہیں اور وہ نہ ہی آج کل داڑھی مونچھیں رکھتا ہے،  وہ بالکل کلین  شیو ہے،  لیکن اس کو اچھی طرح سے قرآن  پڑھنا آتا ہے ،  بہت اچھی خاصی اسلامی معاملات کے بارے میں جانکاری بھی ہے،  پاکی  کے حساب سے بھی ٹھیک ہے اور  وہ ایک سود پر پیسے چلانے والے کا بیٹا ہے، لیکن وہ بندہ خو د صحیح ہے،  وہ مجبوراً اپنے باپ کی وجہ سے اس کے پیسوں پر پلتا پڑھتا ہے۔

تیسرا بندہ ایسا ہے جس کو  نہ قرآن صحیح سے آتا ہے نہ قرآن کے بارے میں صحیح طرح سے جانکاری  ہے، نہ اس کو اچھی طرح سے پاکیزگی کا پتا ہے،  صرف اس  کی  ڈاڑھی  ہے اور نماز پابندی سے پڑھتا ہے۔

اب مجھے آپ یہ بتائیں کہ مقرر عالم امام  کی غیر موجودگی میں کس کو نماز پڑھانی چاہیے؟  اور ان تینوں کی آپ مجھے  ترتیب بھی بتائیں کہ اگر عالم پیش امام  نہیں ہے تو  اس کے بعد کس کو پڑھنانی چاہیے،  اس کے بعد کس کو پڑھانی چاہیے  اور اس کے بعد کس کو پڑھانی چاہیے؟

جواب

اولًا تو  یہ کوشش کرنی  چاہیے کہ مدرسے  میں اپنی جماعت قائم کرنے کی بجائے قریبی کسی مسجد میں باجماعت نماز ادا  کی جائے،  مدرسہ میں نماز ادا کرنے سے مسجد میں نماز ادا کرنے کا ثواب نہیں ملے گا اور نہ ہی بلاعذر ایسا فعل اختیار کرنا چاہیے۔

عذر کی صورت میں  مدرسہ میں باجماعت نماز  پڑھانے کے لیے  اگر مذکورہ  عالم صاحب نہ ہو تو  پھر  ان تین اشخاص میں سے پہلا شخص امامت کا حق دار ہوگا۔

 اور اگر وہ بھی نہ ہو تو  پھر تیسرا شخص قرآن میں اگر  اس طرح کی غلطی نہ کرتا ہو کہ جس سے معنی بگڑ جائیں اور پاکی کا خیال رکھتا ہو  تو وہ امامت کا حق دار ہوگا۔ اور ڈاڑھی  کاٹنے والا اگر چہ اچھا قرآن پڑھنا جانتا ہو،  لیکن فاسق ہے، اور  فاسق  کی امامت مکروہِ  تحریمی  ہے، لیکن اگر وہ شخص قرآن صحیح پڑھنا نہ جانتا ہو تو  پھر مجبوری میں درست تلفظ سے پڑھنے والے داڑھی منڈے کی اقتدا  میں نماز باجماعت ادا  کرلی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 557):

"(و الأحق بالإمامة) تقديمًا بل نصبًا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحةً و فسادًا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، و حفظه قدر فرض، و قيل: واجب، و قيل: سنة (ثم الأحسن تلاوةً) و تجويدًا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. و التقوى: اتقاء المحرمات (ثم الأسن) أي الأقدم إسلامًا، فيقدم شاب على شيخ أسلم، و قالوا: يقدم الأقدم ورعًا. و في النهر عن الزاد: و عليه يقاس سائر الخصال، فيقال: يقدم أقدمهم علمًا و نحوه، و حينئذ فقلما يحتاج للقرعة (ثم الأحسن خلقًا) بالضم ألفة بالناس."

و فیه أیضًا  (1/ 560) :

"(و فاسق و أعمى) و نحوه الأعشى نهر (إلا أن يكون) أي غير الفاسق (أعلم القوم) فهو أولى."

و في الرد:

"و حاصله: أن قوله: "إلا أن يكون أعلم القوم" خاص بالأعمى، أما غيره فلا تنتفي الكراهة بعلمه، لكن ما بحثه في البحر صرح به في الاختيار حيث قال: ولو عدمت أي علة الكراهة بأن كان الأعرابي أفضل من الحضري، والعبد من الحر، وولد الزنا من ولد الرشدة، والأعمى من البصير فالحكم بالضد اهـ ونحوه في شرح الملتقى للبهنسي وشرح درر البحار، ولعل وجهه أن تنفير الجماعة بتقديمه يزول إذا كان أفضل من غيره، بل التنفير يكون في تقدم غيره. وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق، والله أعلم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں