بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اکیڈمی کے استاد کا اکیڈمی کے طالبِ علم کو براہِ راست پڑھانے کا حکم


سوال

 آج کل ہر طرف قرآن آنلائن اکیڈمیز جس میں باہر ممالک کے  بچوں کو ڈھونڈ کرپیسوں کے عوض انہیں پڑھایا جاتا ہے،اور پھر اکیڈمیز والے اس کےلیے ٹیچرز ہائر کرتے ہیں، اب اگر اکیڈمی کا ٹیچر اکیڈمی انتظامیہ سے چھپ کر کسی سٹوڈنٹ کو اس کی رضامندی سے اپنا ذاتی شاگرد بناکر سبق پڑھائے تاکہ اس صورت میں پوری فیس اسی قاری صاحب کو ملے، تو کیا اس طرح شاگرد کو اکیڈمی سے الگ کرکے پڑھانا اور فیس لینا جائز ہے، اور کیا اس طرح کی کمائی سے حاصل شدہ آمدن حلال ہے؟ اور اگر ان سٹوڈنٹ کے ذریعے استاذ کو مزید سٹوڈنٹس مل جائے جو اکیڈمی کے نہ ہو ان کی فیس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر یہ قرآن آنلائن اکیڈمیز میں بچوں کوآنلائن ویڈیوکے ذریعے پڑھایا جاتا ہےجس میں قاری صاحب اور طالبِ علم دونوں کی تصویریں آتی ہوں تو نہ ہی یہ پڑھانا جائز ہے اور نہ ہی اس پر تنخواہ لینا جائز ہے،اور اگر بچوں کو آنلائن ویڈیو کے ذریعے نہیں پڑھایا جاتا بلکہ آڈیو کال وغیرہ کے ذریعے پڑھایا جاتا ہو یا آنلائن ویڈیو  توہو لیکن اس میں جاندار کی تصویر نہ ہو بلکہ قاعدہ یا سپارے کی تصویر آتی ہو تو اس صورت میں ایک ٹیچر کا اسکول انتظامیہ سے چھپ کر کسی طالبِ علم کو  پڑھانے کی تفصیل یہ ہے کہ  اگر وہ طالبِ علم اپنی مرضی سے اکیڈمی سے نکلا ہو اور قاری صاحب کا بلا واسطہ شاگرد بن کر پڑھنے پر راضی ہوتو اس صورت میں اس کو اپنا شاگرد بنانا جائز ہے،اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال ہے اور اس کے واسطے سے مزید جتنے بچے ملیں ان کو پڑھانا اوران سے حاصل ہونے والی آمدنی کو استعمال کرناسب درست ہے۔

اور اگر قاری صاحب نے اس کو اکیڈمی سے نکلنے اور پھر ان سے براہِ راست پڑھنے کا مشورہ دیا ہواور وہ طالبِ علم اپنی مرضی سے اکیڈمی سے نکل کر ان سے براہِ راست پڑھنے پر بخوشی راضی ہوتو اس صورت میں بھی اس کوالگ سے پڑھانا اور اس کی اجرت لینااگرچہ مباح ہے،تاہم قاری صاحب کے لیے ایسا کرنا اخلاقیات کے خلاف  ہے،کیوں کہ یہ طالبِ علم ابتداءاًاکیڈمی ہی کے ذریعے ملا تھااور استاد صاحب بھی اسی اکیڈمی کے ملازم ہیں،اس لیے اس اکیڈمی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے قاری صاحب کا اکیڈمی کونقصان پہنچانا اوراکیڈمی کے طلبہ کو وہاں سے نکل کراپنا براہ راست شاگرد بننے کا مشورہ دینا بالکل درست نہیں۔ 

اور اگر اکیڈمی سے نکلے بغیر ہی ایک وقت میں وہ طالب علم اکیڈمی کے طالبِ علم کی حیثیت سے وہاں کے اساتذہ سے پڑھے اور دوسرے وقت میں دوہرائی وغیرہ کے لیےاکیڈمی کے کسی ایک قاری صاحب سےبراہِ راست پڑھےتو یہ بھی جائز ہے۔

ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ استاد صاحب کے لیے اکیڈمی کے وقت میں کسی طالبِ علم کو پڑھانا جائز نہیں ہے،بلکہ اکیڈمی نے جتنے وقت کے لیے ان کو پابند کیا ہے اتنا وقت ان کے لیے اکیڈمی میں گزارنالازم ہے،اتنے وقت میں آمدنی کا کوئی بھی دوسرا  ذاتی کام کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے۔

"شرح النووي على صحيح مسلم"میں ہے:

"قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صورة الحيوان حرام ‌شديد ‌التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى."

(ص:٨١،ج:١٤،کتاب اللباس والزینة،باب تحريم تصوير صورة الحيوان،ط:دار إحياء التراث العربي)

"مجمع الأنهرفي شرح ملتقي الأبحر"میں ہے:

"(أو المعاصي) أي لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه."

(ص:٣٨٤،ج:٢،کتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،ط:دار إحياء التراث العربي)

"الأشباه والنظائر"میں ہے:

"‌‌القاعدة التاسعة عشرة: إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضيف الحكم ‌إلى ‌المباشر."

(ص:١٣٥،الفن الأول،القاعدةالتاسعة عشر،ط:دار الكتب العلمية)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر."

(ص:٥٠٠،ج:٤،کتاب الإجارة،الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك،ط:دار الفكر،بيروت)

"رد المحتار على الدر المختار"ميں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص)...وليس للخاص أن يعمل لغيره.

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى."

(ص:٧٠،ج:٦،كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں