بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملحق بالصریح سے کون سی طلاق واقع ہوتی ہے؟ / لفظِ آزاد سے رجعی یا بائن واقع ہونے میں علمائے کرام کا منشاءِ اختلاف


سوال

لفظِ "آزاد" اور لفظِ "حرام" موجودہ زمانے میں طلاق کے لیے صریح بن گئے ہیں، اور صریح لفظ سے تو طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ بیشتر علمائے امت نے لفظِ "آزاد" میں تو رجعی کا فتویٰ دیا ہے، لیکن لفظِ "حرام" سے طلاقِ بائن کا فتویٰ دیا ہے؟ نیز آپ حضرات کے بارے میں سنا ہے کہ آپ کے دارالافتاء کے نزدیک لفظِ "آزاد" سے بھی طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے، جب کہ دیگر علماء کے نزدیک طلاقِ رجعی ہوتی ہے، تو آپ کے اور دیگر علماء کے مسلک میں یہ فرق کیوں ہے؟ علمائے کرام کے اس اختلاف کا منشاء کیا ہے؟

لفظِ "آزاد" سے طلاقِ رجعی واقع ہونے کے حوالہ جات:

(1) آپ کے مسائل اور ان کاحل: ٦/ ٤٥٥- ٤٥٦، ط: مکتبہ لدھیانوی

(2) فتاویٰ محمودیہ : ١٢/ ٣٥٨ - ٣٥٩، ط: ادارۃ الفاروق

(3) نجم الفتاویٰ: ٦/ ١٨٤، ط: شعبہ نشر واشاعت دارالعلوم یاسین القرآن

(4) فتاویٰ حقانیہ : ٤/ ٤٧٧، ٤٧٨، ط: دار العلوم حقانیہ

(5) امداد الفتاویٰ: ٥/ ٢٥٦، ط: دارالاشاعت

بہر حال سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ:  (1) جب لفظِ "آزاد" اور لفظِ "حرام" صریح بن چکے ہیں، تو ان دونوں سے طلاقِ رجعی واقع ہونی چاہیے؛ کیوں کہ صریح سے تو طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے، پھر بعض علماء واہلِ افتاء اس میں فرق کیوں کرتے ہیں کہ ایک سے رجعی اور ایک سے بائن واقع مانتے ہیں؟ (2) جب ایک سے رجعی اور ایک سے بائن ہوتی ہے، تو آپ حضرات اور آپ کی طرح بعض دیگر علماء "آزاد" سے طلاقِ بائن کا وقوع کیوں مانتے ہیں؟ آپ کے اور دیگر علماء کا منشاء اختلاف کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو الفاظ اپنی اصل وضع کے اعتبار سے صرف طلاق کے لیے استعمال نہ ہوتے ہوں، بلکہ طلاق اور غیرِ طلاق دونوں کا احتمال رکھتے ہوں، لیکن عرف میں طلاق کے لیے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اُنہیں طلاق کے صریح الفاظ میں شمار کیا جانے لگے، تو ایسے الفاظ کو فقہاء کی اصطلاح میں "ملحق بالصریح" کہا جاتا ہے، اور ان الفاظ سے صریح الفاظ کی طرح بلانیت طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

  جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

وألفاظه: صريح، وملحق به وكناية.

 وقال عليه في الرد: (قوله وملحق به) أي من حيث عدم احتياجه إلى النية كلفظ التحريم."

(كتاب الطلاق، باب ركن الطلاق، ٣/ ٢٣٠، ط: سعيد)

تاہم ان الفاظ کے استعمال سے طلاقِ رجعی یا بائن واقع ہونے کا مدار اُن الفاظ کے صریح یا کنائی ہونے  پر نہیں، بلکہ لفظ کے مقتضیٰ پر ہوتا ہے، یعنی اگر لفظ کےمعنیٰ میں شدت اور سختی ہے، اور اس کا مفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بیوی شوہر سے مکمل طور پر جدا ہوجائے، تو اس سے طلاقِ بائن واقع ہوگی، اور اگر لفظ کے معنیٰ میں خفت اور نرمی ہے، اور اس کا مفہوم ایسی جدائیگی کا تقاضا کرتا ہے جس کے بعد شوہر کو رجوع کا اختیار حاصل ہو، تو اس سے طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔

جیسا کہ النتف فی الفتاویٰ میں ہے:

"وأما الطلاق الرجعي فان كل لفظة فيها ‌لين ‌ولطف فهو رجعي وكل لفظ فيه عنف وغلظ فهو بائن."

(كتاب الطلاق، ١/ ٣٢١، ط: مؤسسة الرسالة)

نیز فتاویٰ شامی میں لفظِ "حرام" سے طلاقِ بائن واقع ہونے کی علت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں :

"‌(قوله: لغلبة العرف) إشارة إلى ما في البحر، حيث قال: فإن قلت إذا وقع الطلاق بلا نية ينبغي أن يكون كالصريح فيكون الواقع به رجعيا قلت: المتعارف به إيقاع البائن، كذا في البزازية اهـ أقول: ‌وفي ‌هذا ‌الجواب ‌نظر فإنه يقتضي أنه لو لم يتعارف به إيقاع البائن يقع الرجعي كما في زماننا، فإن المتعارف الآن استعمال الحرام في الطلاق، ولا يميزون بين الرجعي والبائن فضلا عن أن يكون عرفهم فيه البائن، وعلى هذا فالتعليل بغلبة العرف لوقوع الطلاق به بلا نية، وأما كونه بائنا فلأنه مقتضى لفظ الحرام لأن الرجعي لا يحرم الزوجة ما دامت في العدة وإنما يصح وصفها بالحرام بالبائن، وهذا حاصل ما بسطناه في الكنايات فافهم."

(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ٣/ ٤٣٥، ط: سعيد)

اور باب الکنایات میں اس بات  کا ذکر فرمایا ہے کہ  ملحق بالصریح سے طلاقِ بائن واقع ہونا قواعدِ فقہ کے خلاف نہیں؛ کیوں کہ رجعی یا بائن کا مدار لفظ کے صریح یا کنایہ ہونے پر نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات لفظِ صریح سے بھی بائن واقع ہوجاتی ہے اور بعض الفاظِ کنائی سے رجعی واقع ہوتی ہے:

"‌وكونه ‌التحق بالصريح للعرف لا ينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.

والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ٣/ ٣٠٠، ط: سعيد)

لہٰذا عرف میں طلاق کے لیے کثرتِ استعمال کی وجہ سے لفظِ "حرام" اور لفظِ "آزاد"  کو فقہاء کرام نے اگرچہ ملحق بالصریح قرار دیا ہے، مگر ان الفاظ سے طلاقِ رجعی یا طلاقِ بائن واقع ہونے کا مدار عرف کی وجہ سے ان کے صریح ہوجانے پر نہیں، بلکہ ان الفاظ کے مفہوم ومقتضیٰ پر ہے۔ چناں چہ لفظِ "حرام" کے معنیٰ میں چوں کہ شدت اور سختی ہے، اور اس کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ شوہر کو اس کی بیوی سے مکمل جدائی حاصل ہوجائے، لہٰذا اس لفظ کے استعمال سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے۔اس کے برخلاف جو علمائے کرام لفظِ "آزاد" سے طلاقِ رجعی واقع ہونے کے قائل ہیں، اُن کے نزدیک بھی اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظِ "آزاد"  اُن کے نزدیک لفظ"سرحتك"  کے معنیٰ میں ہے، اور لفظ "سرحتك" کے معنیٰ میں چوں کہ خفت اور نرمی ہے، اور قدیم فقہاء کرام نے اس سے طلاقِ رجعی واقع ہونے کا فتویٰ نقل کیا ہے، اس لیے اُن علمائے کرام کے نزدیک  لفظِ "آزاد" سے طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔

جیسا کہ امداد الفتاویٰ میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظِ "آزاد" سے طلاقِ صریح رجعی واقع ہونے پر رد المحتار کی جس عبارت کو استدلال میں پیش کیا گیا ہے، وہ لفظ "سرحتك" کے بارے میں ہے:

"یہ کہنا کہ آزاد کردی ہے، ہمارے عرف میں طلاق کے لیے مستعمل ہے، لہٰذا اس سے طلاقِ صریح واقع ہوجائے گی ... كما في رد المحتار: فإذا قال لها: رها كردم أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا وماذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح مالم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت. فقط"

(کتاب الطلاق، باب الطلاق الصریح والکنایۃ،  ٥/ ٢٥٦، ط: دارالاشاعت)

نیز امداد الاحکام میں بھی لفظِ "آزاد" سے طلاقِ رجعی واقع ہونے پر فتاویٰ عالمگیریہ کی جس عبارت سے استدلال کیا گیا ہے،  وہ لفظ "بہشتم" کے بارے میں ہے:

"(سوال) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ۔ ایک شخص زید نے غصہ ولڑائی میں اپنی زوجہ کو دو دفعہ یہ کہہ دیا کہ میں نے تجھ کو آزاد کردیا تومیری بہن ہے ۔۔۔ اب ایسی طلاق جائز ہے یا نہیں؟

(الجواب):قال في العالمگيرية وكان الشيخ الإمام ظهير الدين المرغيناني - رحمه الله تعالى - ‌يفتي ‌في ‌قوله ‌بهشتم بالوقوع بلا نية ويكون الواقع رجعيا ويفتي فيما سواها باشتراط النية ويكون الواقع بائنا كذا في الذخيرة اه ... صورتِ مسئولہ میں زید کی بیوی پر دو طلاقِ رجعی پڑگئیں جس سے نکاح نہیں ٹوٹا ۔۔۔ الخ"

(کتاب الطلاق، ٢/ ٤٤٤، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

اسی طرح فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"لفظ "آزاد کردی" جسے فارسی میں رھا کردم اور عربی میں سرحتكکہتے ہیں، اصل میں یہ لفظ کنایہ طلاق ہے، لیکن غلبہ استعمال سے رجعی بن گیا ہے۔"

(کتاب الطلاق، ٦/ ٤٠٠، ط: جمعیۃ پبلکیشنز)

نیز فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

"[سوال ٣٨٠]: "آزاد کرنا" یا "آزاد پھرنا" کو حضرت تھانویؒ نے فتاویٰ میں صریح لکھا ہے (امداد الفتاویٰ ۔ کتاب الطلاق)، لیکن گجرات کا عرف اس بارے میں کیا ہے، بعض گجراتی عرف سے واقفین کی رائے ہے کہ یہاں کے عرف میں کنایہ ہے، لہٰذا آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ المستفتی (مفتی) سعید احمد پالن پوری (صاحب زید مجدہم)۔

[الجواب]: بندہ کی رائے یہ ہے کہ لفظ آزاد کردی بھی مانند گذاشتم وچھوڑ دی کے ملحق بصریح ہے۔"

(کتاب الطلاق، ٨/ ٣٠٣، ط: دارالاشاعت)

نیز فتاویٰ محمودیہ میں بھی لفظ "چھوڑ دی" اور لفظ "آزاد کردی" کو ایک ہی مرتبے میں شمار کیا ہے:

"[سوال ٦٠٩٦]: (1) لفظِ "آزاد" صریح ہے یا کنایہ؟ (2) لفظِ "چھوڑ دی" صریح ہے یا کنایہ؟

[الجواب]: (1) ہمارے عرف میں جب شوہر اپنی بیوی کے لیے یہ لفظ بولتا ہے کہ "میں نے اس کو آزاد کردیا"، تو اس سے طلاق ہی مراد ہوتی ہے، پس یہ بمنزلۂ صریح طلاق کے ہے۔

(2) یہ لفظ بھی اسی طرح مستعمل ہے، جس طرح لفظ "آزاد کردیا" ہے، کسی اور علاقہ کا کوئی عرف دوسرا ہو تو اس کا حکم بھی دوسرا ہوگا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔"

(کتاب الطلاق، باب الطلاق الصریح، ١٢/ ٣٥٢، ط: ادارۃ الفاروق)

فتاویٰ حقانیہ میں ہے:

"بیوی سے یہ کہنا کہ "تُو مجھ سے آزاد ہے"۔ ان الفاظ کی عربی زبان میں "سرحتك" سے تعبیر کی جاتی ہے،جو عرف میں طلاقِ رجعی میں استعمال ہوتے ہیں، اس لیے ان الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔"

(کتاب الطلاق، طلاق الصریح والکنایۃ، ٤/ ٤٧٨، ط: مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک)

مذکورہ بالا تمام فتاویٰ جات  کی عبارتوں سے ثابت ہوا کہ جو علمائے کرام لفظِ "آزاد" سے طلاقِ رجعی کے وقوع کے قائل ہیں، اُن کے نزدیک اس کی علت یہ ہےکہ یہ لفظ "سرحتك"کے معنی ٰ میں ہے، اور اس کے مفہوم میں خفت ونرمی ہے، اور فقہاء نے اس سے طلاقِ رجعی واقع ہونے کا قول نقل کیا ہے، اس لیے لفظِ "آزاد" سے بھی طلاقِ رجعی واقع ہوگی،  تاہم اس کے برخلاف دیگر علمائے کرام کے نزدیک لفظِ "آزاد"، "أنت حرة" کا ترجمہ ہے، "سرحتك" کا نہیں، اور  اس کے معنیٰ میں چوں کہ لفظِ "حرام" کی طرح شدت اور سختی ہے، اور متقدمین فقہاء کرام نے  اس سے طلاقِ بائن واقع ہونے کا فتویٰ نقل کیا ہے، لہٰذا  لفظِ "آزاد" سےبھی  طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے۔

ہمارے دارالافتاء کی تحقیق بھی یہی ہے، اور اسی قول کو فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (٩/ ٢٦٨، ٢٩٨، ٣١٠، ط: دارالاشاعت)،  کفایت المفتی (٦/ ٣٨٣، ط:دارالاشاعت)، فتاویٰ مفتی محمود ( ٦/ ٣٦١، ط: جمعیۃ پبلکیشنز)، احسن الفتاویٰ (٥/ ٢٠٢، ط: ایچ ایم سعید)، خیر الفتاویٰ (٥/ ٢١٢، ط: مکتبہ امدادیہ ملتان)، اور فتاویٰ دارالعلوم زکریا (٤/ ١٤٢، ط: زمزم پبلشر)میں بھی اختیار کیا  گیا ہے۔

کتاب الاصل میں ہے:

"وإذا قال الرجل لامرأته: أنت مني بائن أو برية أو خلية، فإنه يسأل عن نيته ... فإن نوى واحدة فهي واحدة بائن ... وإن نوى الطلاق ولم ينو عددا فهي واحدة بائنة. وكذلك كل كلام يشبه الفرقة مما أراد به الطلاق فهو مثل هذا، كقوله: حبلك على غاربك ... وكذلك لو قال لها: ‌أنت ‌حرة، ينوي الطلاق."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق من الكلام، ٤/ ٤٥٣، ط: دار ابن حزم)

کنز الدقائق میں ہے:

"فتطلق واحدة رجعية في اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة وفي غيرها بائنة ... وهي بائن بتة بتلة حرام ... ‌أنت ‌حرة."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ص: ٢٧٦، ط: دار البشائر الإسلامية)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك ... أو ‌أنت ‌حرة ... يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس، ١/ ٣٧٥، ط: دارالفكر)

وفيه أيضاً:

"ولو قال أعتقتك طلقت بالنية كذا في معراج الدراية. وكوني حرة أو اعتقي مثل ‌أنت ‌حرة كذا في البحر الرائق."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس، ١/ ٣٧٦، ط: دارالفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: أنت حرة) ‌عن ‌حقيقة ‌الرق ‌أو ‌عن ‌رق ‌النكاح، وفي فتح القدير وأعتقتك مثل أنت حرة، وفي البدائع كوني حرة أو اعتقي مثل أنت حرة ككوني طالقا مثل أنت طالق."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات في الطلاق، ٣/ ٣٢٥، ط: دار الكتاب الإسلامي)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ  لفظِ "آزاد" اور لفظِ "حرام" اگرچہ عرف میں طلاق کے لیے کثرتِ استعمال کی بناء پر ملحق بالصریح بن گئے ہیں، لیکن ان سے طلاقِ رجعی یا بائن واقع ہونے کا مدار ان کے صریح ہوجانے پر نہیں، بلکہ ان الفاظ کے معنیٰ اور مفہوم کے مقتضیٰ پر ہے، لہٰذا لفظِ "حرام" کے معنیٰ ومفہوم میں سب علماء کے نزدیک چوں کہ سختی اور شدت ہے، اس لیے اس سے بالاتفاق طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے، البتہ لفظِ " آزاد" کو جن علمائے کرام نے "سرحتك" کے معنیٰ میں مانا ہے، اُنھوں نے اس کے معنی ومفہوم کی نرمی وخفت کو دیکھتے ہوئے اس سے طلاقِ رجعی واقع ہونے کا قول اختیار کیا ہے، اور جن علمائے کرام نے اس کو "أنت حرة" کے معنیٰ میں شمار کیا ہے، انھوں نے اس کے معنیٰ ومفہوم کی سختی وشدت کو دیکھتے ہوئے اس سے طلاقِ بائن واقع ہونے کا قول اختیار کیا ہے، اور یہی اختلاف کا منشاء ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں