بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اکاونٹ کھلوانےکے سبب ملنے والی بینک انشورنس کا حکم


سوال

میں نے بینک اکاونٹ کھلوایا ہے،جس کی وجہ سے    مجھے طبعی موت یا  حادثاتی موت  کی صورت پربینک  دس لاکھ روپے کی انشورنس اور موبائل کے  چوری یا چھن جانےکی صورت میں  پچیس ہزار  روپے کی انشورنس دے گا، جب کہ اس انشورنس کے  مد میں مجھ سے کوئی ماہانہ یا سالانہ رقم نہیں لی جائے گی،یہ انشورنس صرف اکاونٹ کھلوانے پر مل رہی ہے، کیا یہ انشورنس کی رقم لینا جائز ہوگا؟برائے مہربانی راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ بینک کی اپنی آمدن  ہی حلال نہیں ہے، کیوں کہ بینک  آمدن کا ذریعہ بنیادی طور پر سودی معاملات ہیں،لہذا بینک  کی رقم لے کر خرچ کرنا جائز نہیں ہے،  نیز بینک یہ سہولت صرف اس شخص کو دیتا ہے جو شخص مذکورہ  بینک میں اکاؤنٹ کھلوا کر رقم رکھواتا ہے، اور اکاؤنٹ میں جو رقم ڈپازٹ کی جاتی ہے اس کی حیثیت قرضے کی ہوتی ہے،اور قرضے سے نفع لینا بھی  حرام ہے،اور مذکورہ انشورنس اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے(قرضے ) کے سبب ہی ملتی ہے، نیز انشورنس  بھی سود اور جوا کے سبب ناجائزہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ انشورنس، بینک کی آمدن کے حرام ہونے ، نیز قرضہ دے کر نفع لینےاور انشورنس میں پاۓ جانے والے جوا اور سود کے سبب حرام ہے، لہذا مذکورہ انشورنس کی رقم  بینک سے وصول کرنا اور استعمال کرنا دونوں ہی ناجائز ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾."[المائدة: 90]

ترجمہ:’’ اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔‘‘ (بیان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض ‌جر ‌نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب."

(كتاب القرض،فصل في شرائط ركن القرض،395/7،ط:سعيد)

احکام القرآن میں ہے:

"ولا خلاف بین أهل العلم في تحریم القمار".

( البقرة: ٢١٩، باب تحريم الميسر،398/1، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسمي القمار قمارًا؛ لأنّ كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع،403/6،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"کل ما یؤدي إلی ما لایجوز لایجوز".

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في اللبس،360/6،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

‌‌[مطلب إذا ‌اكتسب ‌حراما ‌ثم ‌اشترى فهو على خمسة أوجه]

"(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها"

(كتاب البيوع،‌‌باب المتفرقات،235/5،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں