بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایکسیڈنٹ میں غلطی سے کوئی غیر مسلم مرگیا تو کیا حکم ہے؟


سوال

غلطی سے کوئی کافر گاڑی چلاتے ہوئے مارا گیا اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

اسلامی ریاست میں جان کے تحفظ میں ایک مسلم اور غیرمسلم(ذمی) دونوں برابر ہیں،لہذا اگر گاڑی چلاتے ہوئے غلطی سے غیر ارادی طور پر ایکسیڈنٹ کے ذریعہ  کسی دوسرے کاقتل ہوگیا ہےتو یہ قتلِ خطا ہے اور  اس کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے،کفارے کے طور پر اس ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے،اور اگر یہ جرم ڈرائیور نے خود اپنے اقرار کے ذریعہ قبول کیا ہے تو دیت کی ادائیگی بھی اسی کے مال سے ڈارئیور کے ذمہ ہے،البتہ اگر  جرم  گواہوں کی گواہی کے ذریعہ ثابت ہوا ہے تودیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کے "عاقلہ" کے ذمہ ہے، عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، سونے کی صورت میں اگر دیت ادا کی جائے تو دیت کی مقدار ایک ہزار دینار اور درہم  کے اعتبار سے دس ہزار (10000 ) درھم جس کا اندازہ جدید پیمانے سے 30.618 کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قال: ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما)؛ لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه؛ لأن القائد لايقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

(کتاب الجنایات،ج10،ص330،ط؛دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"قال (وقتل الخطأ تجب به الدية على العاقلة والكفارة على القاتل) لما بينا من قبل. قال: (والدية في الخطأ مائة من الإبل أخماسا عشرون بنت مخاض وعشرون بنت لبون وعشرون ابن مخاض وعشرون حقة وعشرون جذعة) وهذا قول ابن مسعود - رضي الله عنه -، وأخذنا نحن والشافعي به لروايته «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قضى في قتيل قتل خطأ أخماسا» على نحو ما قال، ولأن ما قلناه أخف فكان أليق بحالة الخطإ لأن الخاطئ معذور، غير أن عند الشافعي يقضي بعشرين ابن لبون مكان ابن مخاض والحجة عليه ما رويناه قال (ومن العين ألف دينار ومن الورق عشرة آلاف درهم) وقال الشافعي: من الورق اثنا عشر ألفا لما روى ابن عباس - رضي الله عنهما - أن النبي - عليه الصلاة والسلام - قضى بذلك. ولنا ما روي عن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي - عليه الصلاة والسلام - قضى بالدية في قتيل بعشرة آلاف درهم» . وتأويل ما روي أنه قضى من دراهم كان وزنها وزن ستة وقد كانت كذلك.........قال: (ودية المسلم والذمي سواء)."

(کتاب الدیات،ج10،ص274 تا 278،ط؛دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكذلك من أقر بقتل خطأ كانت الدية في ماله في ‌ثلاث ‌سنين."

(کتاب الجنایات،الباب السادس عشر في المعاقل،ج6،ص87،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں