ابو تراب کی معنی کیا ہے ۔ اور جنگ صفین کا خلاصہ فرمائیں؟
(1)واضح رہے کہ ابو تراب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ہے، جس کا معنیٰ ہے: مٹی والا۔اس کی تفصیل صحیح بخاری میں منقول ہے:حضرت سہل بن سعد ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کو اپنے ناموں میں ’’ابوتراب‘‘ کا لفظ بہت پسند تھا اور اس نام سے پکارے جانے سے بہت خوش ہوتے تھے اور یہ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی رکھا ہوا تھا ، ایک دن حضرت فاطمہ ؓ سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے اور مسجد کی دیوار سے لگ کر لیٹ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تلاش کرتے ہوئے تشریف لائے کسی نے بتایا کہ وہ دیوار سے لگ کر لیٹے ہوئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت ان کی پیٹھ میں مٹی لگ گئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پیٹھ سے مٹی صاف کرتے جاتے اور فرمایا: "اے ’ابوتراب‘‘ اٹھیں بیٹھیں۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن سهل بن سعد، قال: إن كانت أحب أسماء علي رضي الله عنه إليه لأبو تراب، وإن كان ليفرح أن يدعى بها، وما سماه أبو تراب إلا النبي صلى الله عليه وسلم، غاضب يوما فاطمة فخرج، فاضطجع إلى الجدار إلى المسجد، فجاءه النبي صلى الله عليه وسلم يتبعه، فقال: هو ذا مضطجع في الجدار، فجاءه النبي صلى الله عليه وسلم وامتلأ ظهره ترابا، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يمسح التراب عن ظهره ويقول: «اجلس يا أبا تراب."
(کتاب الأدب،باب التکني بابي التراب و ان کانت له کنیة اخري جلد 8 ص: 45 ط: دارطوق النجاۃ)
(2) واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا چناؤ اللہ رب العزت نے خود فرمایا، اور ان محترم اشخاص کی تربیت خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کروائی، جس کی برکت سے یہ اشخاص ظاہری و باطنی رذائل و برائیوں سے محفوظ کردیے گئے تھے، جس کی وجہ سے آپس میں ذاتی مفاد یا عناد کی بنا پر آپس میں دست و گریباں نہیں ہوا کرتے تھے، جس کی شہادت خود خالقِ کائنات نے سورۂ فتح میں ﴿أشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ﴾ نازل فرماکر دی ہے، پس صحابہ کرام کے درمیان اگر کسی موقع پر ظاہری اختلاف یا نزاع کی صورت تاریخ کے اوراق میں نظر آتی ہے تو اس کا سبب ذاتی یا دنیاوی مفاد ہر گر نہیں تھا، بلکہ اس کا سبب کسی دینی معاملہ میں اجتہاد کا فرق تھا، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ہونے والے ظاہری نزاع کو مشاجرۃِ صحابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ظالم قرار دینا یا اسلام دشمن قرار دینا بالکل غلط ہے۔چنانچہ جنگ صفین کے نام سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والے ظاہری نزاع کا اصل سبب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے قصاص لینے کا معاملہ تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے اور خلافت کو مضبوط کرنے کے بعد قصاص لینا چاہتے تھے، فوری قصاص لینے کو خلافتِ اسلامیہ کے لیے نقصان دہ تصور کررہے تھے، جب کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کہنا یہ تھا کہ اگر فوری قصاص نہ لیا تو لوگ بقیہ صحابہ و اکابرینِ امت پر دست درازی کرنے کے سلسلہ میں جری ہو جائیں گے، اس اجتہادی اختلاف کی بنا پر معاملہ آگے بڑھتا گیا اور نوبت جنگ تک جا پہنچی تھی، مگر اس جنگ کی بنا پر دونوں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک پر طعن و تشنیع کرنا شرعاً جائز نہیں اور آخرت میں وبال کا باعث ہے۔
مزید تفصیل کے لۓ مستند کتب کا مطالعہ فرمائیں۔
شرح العقائد النسفية میں ہے:
"وما وقع من المخالفات و المحاربات لم يكن من نزاعٍ في خلافته، بل عن خطاء في الإجتهاد".
و في هامشه:
"والمقصود منه دفع الطعن من معاوية و من تبعه من الأصحاب و عن طلحة و زبير و عائشة؛ فإن الواجب حسن الظن بأصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم و اعتقاد براءتهم عن مخالفة الحق؛ فإنهم أسوة أهل الدين و مدار معرفة الحق و اليقين."
(ص: 152 ط: المصباح)
النبراس على شرح عقائدمیں ہے:
"خصه بالذكر؛ لأن حربه أشهر من حرب الباقين؛ و الخطاء هو الاستعجال في طلب قصاص عثمان رضي الله عنه زعماً أن التاخير يوجب جرءة العوام على الأكابر، و كثيراً ما يفوت المطلوب...الخ."
(ص: 307 ط: مکتبه حقانیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505100675
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن