بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عبقری نورانی کڑے کا حکم


سوال

یہ عبقری کی جانب سے دیا گیا جو اشتہار ہے، اس کا حکم معلوم کرنا ہے؟

خالص ترین تانبے سے تیار جس پر طاقتور ترین روحانی الفاظ کنندہ ہیں، کڑے کو بازو میں پہننے سے ہر قسم کی بندش ، کالاسفلی عمل، جادو، نظر بد،جنات سے انسان محفوظ رہتا ہے، جسمانی بیماریوں کا انتہائی آزمودہ شفائی فارمولہ ڈسک پرابلم ،کمر درد، گھٹنوں کا درد، کندھے کا درد،شاٹیکا کا درد، شقیقہ کا درد،نظر کی کمزوری، دماغی کمزوری،پٹھوں کا درد، کھچاؤ،بچوں کے قد کا رک جانا،بالوں کا گرنا، یادداشت کی کمزوری، مر د وخواتین کے پوشیدہ امراض ، بے اولادی ، امراض جگر، معدہ اور دل سے نجات کے لیےانتہائی مفیدہے ۔ بس یہ ’’ نورانی حفاظتی کڑا‘‘ پہنیں اور انوکھے کرشمات دیکھیں۔

نوٹ: یہ کڑا بازو کے اوپر چڑھاکر پہنیں، کلائی پر نظر نہ آئے،مرد اپنی بائیں کلائی پر اور خواتین اپنی دائیں کلائی پر پہنیں۔

جواب

واضح رہے کہ جب کسی مرض کے علاج کے لیے  جائز طریقہ موجود ہو توعلاج کے لیے  نا جائز طریقہ اپنانے کی  ضرورت باقی نہیں رہتی، لہذااسے "الضرورۃ تبیح المحظورات"کے تحت داخل کر کے جائز قرار دینے کی ضرورت نہیں،مذکورہ"عبقری نورانی کڑا "جن امراض کے علاج کی خاطر تیار کیا گیا ہے ان تمام امراض کا جائز طریقے سے کامیاب علاج ممکن ہے،لہذا مرد حضرات کے لیے  تانبے کی دھات کا بنا ہوا کڑا علاج کے طور پر پہننا بھی مکروہ ہےالبتہ عورتوں کے لیے گنجائش ہے بشرطیکہ شفاءدینے والا اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھے ،نیز یہ کہ عورتوں کے لیے سونا چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی انگوٹھی پہننا منع ہے ،باقی انگوٹھی کے علاوہ دیگر زیورات دوسری دھاتوں کے بھی جائز ہیں ۔

فتاوی شامیمیںہے:

"ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر"۔

(کتاب الحضر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج6، ص363،ط: سعید کراچی)

الدر مع الرد میں ہے:

"قيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان وعليه الفتوى".

(کتاب الطہارۃ،باب المیاہ،فروع التداوي بالمحرم،ج:1،ص:210،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101736

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں