بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغ سے روکنے پر بیوی کو طلاق دینے کا حکم


سوال

ایک امیر صاحب کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو جماعت میں جانے سے روکتی ہے تو ایسی عورت کو طلاق دینا درست ہے،  کیا ایسا شرعًا کوئی حکم ہے؟

جواب

بقدرِ  ضرورت دین سیکھنا ہرشخص پر واجب ہے، چاہے وہ تبلیغ کے شعبہ کے ذریعہ ہو یا مدرسہ وخانقاہ یا دین کے دوسرے شعبہ کے ذریعہ ہو،اور  یہ کام صرف  مروجہ تبلیغ کے ذریعے فرض نہیں ہے،  لہذا کسی بھی شخص پر بیوی بچوں کا نفقہ کمانے کی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد بیوی کو سمجھا کر تبلیغ میں وقت لگانا چاہیے، ایسے معاملات کی وجہ سے بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہیے اور پھر طلاق تو ویسے بھی اللہ کے نزدیک مبغوض ترین عمل  ہے، لہذا بیوی کو  جس وجہ سےشوہر کے وقت لگانے پر اعتراض ہے شوہر کو چاہیے کہ  اس اعتراض کو ختم کرکے اور اس کو مطمئن کرکے وقت لگائے  ، اور بزرگوں کا بھی یہی موقف ہے۔

امداد المسائل (مفتی عبدالشکور ترمذیؒ) میں ہے:

"حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ کی تبلیغی تحریک میں تعلیم وتعلم اوراصلاح وصلاح کے دونوں پہلوؤں کی رعایت ہے ،اگر حدود شرعیہ اورشرائط  ٔ آداب کو ملحوظ رکھ کر اس میں حصہ لیا جائے تو منجملہ دوسرے طرق تبلیغ کے یہ طریقہ بھی مفید اورمستحسن ہے اوراس کے ثمرات وفوائد ظاہر وباہر ہیں،  لیکن تعلیم وتعلم یااصلاحِ اخلاق کے  لیے ہر مسلمان پر گھر سے باہر نکلنا اورسفر کرنا فرض نہیں ہے، بس اس قدر ضروری اورفرض ہے کہ دینی ضروری علم حاصل کرے اور اپنے اخلاق کی درستگی کی کوشش میں لگارہے ،اس کا جوطریقہ بھی میسر ہو اس پر عمل کرنے سے یہ فرض ادا ہوجائے گا ،فرائض کا علم حاصل کرنا فرض ہے اورواجبات کا واجب اورسنن ومستحبات کا سنت ومستحب ہوگا، البتہ جس شخص کے  لیے دوسرا طریقہ اپنی اپنی دینی ضروریات کے سیکھنے کا میسر نہ ہوسکے ،اس کے  لیے اسی طریقہ کو فرائض وواجبات کی حدتک سیکھنے کے  لیے ضروری قرار دیا جائے گا اورباقی کے  لیے مستحب وسنت اورہر مسلمان پر بقدر اس کے علم کے لازم ہے کہ وہ اپنے توابع اورمتعلقین ِاہل وعیال کو تبلیغ ِدین کرتا رہے اوراحکام ِشریعت بتلاتا اوراس پر عمل کی تاکید کرتا رہے اورہر وقت ’’کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ‘‘کو پیش ِ نظر رکھ کر اپنی مسئولیت کا خیال رکھے اپنے گردوپیش اوراپنے ماحول میں بقدر استطاعت احکام دین کی تبلیغ اوراصلاح اخلاق کی سعی اورکوشش میں لگارہے ،اس مذکورہ خاص شکل کے علاوہ تبلیغ کی یہ خاص صورت نہ فرض عین ہے ،اورنہ ہی فرض کفایہ، البتہ قواعد ِشرعیہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ایک مستحب اور مستحسن عمل ہے ،جو شخص فکرِ معاش سے فارغ ہوکر اورحقوقِ اہل وعیال کا انتظام کرکے اس پر عمل کرنا چاہے وہ ایک مستحب اورمستحسن عمل کرتا ہے ،جو نہیں کرتا اس پر شرعاً کوئی مؤاخذہ نہیں ہے، بشرطیکہ دوسرے طریقہ سے وہ اس فرض کی ادائیگی میں ساعی اورکوشاں رہتا ہے ۔"

(تبلیغی جماعت سے متعلق سوالات وجوابات، ص:108،  ط:حقانیہ ساہیوال)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں