بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آب زمزم کی خرید وفروخت


سوال

آب زم زم کا بیچنا کیسا ہے جیسا کہ  آج کل پاکستان میں رواج ہے۔

جواب

ویسے تو آب زمزم کسی کی شخصی ملکیت نہیں ہے،اس سے انتفاع ہر ایک کے لیے جائز ہے،مگر جب کوئی شخص اسے بوتل/کین وغیرہ میں محفوظ کرلے تو شرعا وہ اس کا مالک ہوجاتاہے،لہذا اس کی اجازت کے بغیر کسی اور کا اس پانی کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے،پھر چاہے تو وہ شخص اس پانی کو خود استعمال کرے یا اس کو فروخت کرے،شرعا جائز ہے۔

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"‌‌الفصل الثاني: في بيان كيفية استملاك الأشياء المباحة

المادة (1248) أسباب التملك ثلاثة:

الأول ، الناقل للملك من مالك إلى مالك آخر كالبيع والهبة.

الثاني: أن يخلف أحد آخر كالإرث.

الثالث: إحراز شيء مباح لا مالك له

وهذا إما حقيقي وهو وضع اليد حقيقة على ذلك الشيء وإما حكمي وذلك بتهيئة سببه كوضع إناء لجمع المطر ونصب شبكة لأجل الصيد.

المادة (1249) كل من يحرز شيئا مباحا يملكه مستقلا ، مثلا لو أخذ أحد من نهر ماء بوعاء كالجرة والبرميل فبإحرازه وحفظه في ذلك الوعاء صار ملكه فليس لغيره صلاحية الانتفاع به ، وإذا أخذه آخر بدون إذنه واستهلكه يكون ضامنا."

(الکتاب العاشر :الشرکات،‌‌الباب الرابع: في بيان شركة الإباحة،الفصل الأول: في بيان الأشياء المباحة والغير المباحة،ص240،ط؛نور محمد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں