بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عبد الباسط کو صرف باسط کہہ کا پکارنے کا حکم


سوال

کیا عبدالباسط نامی شخص  کو باسط کہہ کر پکارنا صحیح ہے؟ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے، کیا یہ مکروہ حرام ہے یا غلط؟

برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ’’باسط‘‘  کے معنی ہیں : فراخی دینے والا، کھولنے والا،یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے، اس لیے عبد کے بغیر بھی اس کا استعمال جائز ہے، لیکن پسندیدہ نہیں ہے۔ 

اس کی تفصیل یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے  صفاتی ناموں کی دو قسمیں ہیں:ایک  وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے مثلاً:”رحمان،خالق، رزاق، قدوس، صمد، قیوم، باری،غفار،متکبر، قہار، احد، ذوالجلال والاکرام“ وغیرہ ،   ان کا حکم یہ ہے کہ  اگر یہ نام ”عبد“ کی اضافت کے ساتھ  رکھے جائیں تو جائز ہے، اور اگرعبد کی اضافت کے بغیر رکھے جائیں تو جائز نہیں ہے۔

دوسرے  وہ صفاتی نام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہیں، مثلاً:سمیع ، بصیر، رحیم، علیم، روٴف، رشید ، جمیل ، اکرم، مالک، ماجد، رافع، باسط، قائم، معطی وغیرہ ،  یہ نام ”عبد “ اضافت کے بغیر بھی رکھے جاسکتے ہیں،لیکن پسندیدہ نہیں ہے،البتہ ! اس قسم کے ناموں کے رکھنے کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ ان ناموں کے وہ معنیٰ مراد نہ لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہیں،مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ان صفات سے متصف ہونا  کامل، ذاتی اور نقص سے خالی ہے اور مخلوق کے اندر یہ معنیٰ عطائی اور نقص والے ہیں، مطلب یہ کہ ان ناموں کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لیے ہو گا تو اس کے خاص معنیٰ ہوں گے اور اگر ان ناموں کا استعمال بندوں کے لیے ہو گا تو ان کے معنیٰ اور ہوں گے۔

بہرحال اگر کسی کا نام رکھنا ہو تو ’’عبدالباسط‘‘ رکھنا چاہیے، اور اسے پورے نام عبد الباسط کے ساتھ ہی پکارنا اور یاد کرنا چاہیے،البتہ عبد الباسط کو باسط کہہ کر پکارنے کی گنجائش ہے،لیکن پسندیدہ نہیں ،کیوں کہ آج کے دور میں بعض  لوگوں کی عادت ہے کہ ایک دوسرے کو پکارتے وقت ان کےنام کی تحقیر کرتے ہیں،اس لئے پورانام پکارناچاہیے۔

قرآن کریم میں ہے:

" وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ ."   (الانعام:93)

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية وفيها 

(قوله وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية ‌التسمية ‌باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل."

(ردالمحتار،كتاب الحظر والإباحة،6/ 417،ط:سعید)

تفسير الطبری میں ہے:

"وكان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضا بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء - كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني...."

 (تفسیرالطبری،الفاتحة،1/ 133،ط:دار التربية والتراث)

تحفۃ المولود باحکام المولود لابن القیم میں ہے:

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب .....وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى ."

(الباب الثامن،الفصل الثاني فيما يستحب من الأسماء وما يحرم منها وما يكره،ط: مکتبہ دارالبیان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں