بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عبد الرحمن کو رحمن کہہ کر پکارنا گناہ ہے


سوال

1- اگر میں نے کسی کو رحمن يا رزاق کہتے سن لیا تو کیا مجھے بھی گناه ملے گا کیونکہ یہ میرے کان میں گیا میں اسے نہیں سننا چاہتا تھا ؟

2. اگر ماں باپ یا بھائی بہن کوئی بھی مشرکانہ الفاظ کہے تو کیا مجھے گناه ملے گا کیوں کہ میں نے انہیں کہا کہ ایسا نہ کہیں؟

جواب

1- اگر کسی کا نام عبدالرحمن، یا عبدالرزاق ہو تو اسے رحمن یا رزاق کہہ کر پکارنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ رحمٰن، رزاق، اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ میں سے ہیں۔ باقی اس طرح کی گفتگو اگر سن لی جائے توانہیں حکمت اور پیار سے منع کر دینا چاہیے، تاہم اس کاگناہ کہنے والے پر ہی ہو گا۔

حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ  ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’ عبد کا لفظ ہٹاکر اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ بندے کو پکارنا نہایت قبیح ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام دو قسم کے ہیں:ایک قسم ان اسمائے مبارکہ کی ہے جن کا استعمال دُوسرے کے لیے ہو ہی نہیں سکتا، جیسے:اللہ، رحمن، خالق، رزّاق وغیرہ۔ ان کا غیراللہ کے لیے  استعمال کرنا قطعی حرام اور گستاخی ہے، جیسے کسی کا نام’’عبداللہ‘‘ہو اور’’عبد‘‘کو ہٹاکر اس شخص کو ’’اللہ صاحب‘‘کہا جائے، یا ’’عبدالرحمن‘‘کو’’رحمن صاحب‘‘ کہا جائے، یا ’’عبدالخالق‘‘ کو’’خالق صاحب‘‘ کہا جائے، یہ صریح گناہ اور حرام ہے۔ اور دُوسری قسم ان ناموں کی ہے جن کا استعمال غیراللہ کے لیے بھی آیا ہے، جیسے قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’روٴف رحیم‘‘ فرمایا گیا ہے، ایسے ناموں کے دُوسرے کے لیے بولنے کی کسی حد تک گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن ’’عبد‘‘ کے لفظ کو ہٹاکر اللہ تعالیٰ کا نام بندے کے لیے  استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں۔ بہت سے لوگ اس گناہ میں مبتلا ہیں اور یہ محض غفلت اور بے پروائی کا کرشمہ ہے۔ ‘‘(آپ کے مسائل8/269،ط:مکتبہ لدھیانوی)

2- مذکورہ صورت میں  منع کے باوجود شرکیہ الفاظ کہنے والوں کا گناہ اور وبال بھی  ان ہی پر ہو گا، روکنے/منع کرنے والا بری ہوگا۔اگر زبان سے روکنے کی طاقت ہو تو زبان سے روک دینا چاہیے، اگر زبان سے (روکنے کی) طاقت نہ ہو تو دل سے بُرا سمجھ

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، ح وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة كلاهما، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب - وهذا حديث أبي بكر - قال: أول من بدأ بالخطبة يوم العيد قبل الصلاة مروان. فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال أبو سعيد: أما هذا فقد قضى ما عليه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان» ."

(صحیح مسلم، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان، ج: 1، صفحہ: 69، رقم الحدیث: 78ط:  دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں