بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضرت عبدالمطلب صحابی ہیں؟


سوال

کیا حضرت عبدالمطلب صحابی ہیں؟  اور ان کو رضی اللہ عنہ کہا جاسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ "صحابی  "  کی متفقہ تعریف جو جمہور محدثین وفقہاء کے نزدیک معتبر ومستند ہے، وہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی (متوفی: ۸۵۲ھ) نے ذکر فرمائی ہے: 
’’و هو من لقي النبي صلى الله علیه وسلم مؤمنا به، ومات على الإسلام، ولو تخللت ردۃ في الأصح.‘‘

(نزهة النظر في توضیح نخبة الفکر، تعریف الصحابي، ص:۱۴۰، ط: مطبعۃ سفیر،ریاض) 

’’صحابی  وہ ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کی حالت میں ملاقات ہوئی، اور اسلام پر اس کی وفات ہوئی ہو۔‘‘ 

اور اس کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یعنی جس شخص نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہو، یا رسول اللہ ﷺ نے اسے اس حالت میں دیکھا ہو جب وہ ایمان لاچکا ہو، تاکہ وہ صحابہ بھی اس تعریف میں داخل ہوجائیں جو نابینا تھے۔

قریب قریب یہی تعریف امام احمد بن حنبلؒ، امام بخاریؒ اور امام نوویؒ سے بھی منقول ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جس نے ایک دفعہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بحالتِ اسلام کی ہو، اس پر صحابیؓ  کا اطلاق ہوگا، چنانچہ خطیب بغدادیؒ (متوفی: ۴۶۳ھ) نقل کرتے ہیں:

’’سمعت أبا عبد اللہ أحمد بن حنبل قال: کل من صحبه سنة أو شهرًا أو یومًا أو ساعةً أو رآہ فهو من أصحابه، له من الصحبة علی قدر ما صحبه، وکانت سابقته معه، وسمع منه، ونظر إلیه. قال محمد بن إسماعیل البخاري: ومن صحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم أو رآہ من المسلمین فهو من أصحابه.‘‘

(الکفایة في علم الروایة، باب القول في معنی وصف الصحابي، ج: ۱، ص:۱۹۲، ط:مکتبۃ ابن عباس)

لہذا عبد المطلب کو وہ زمانہ نصیب نہ ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ کو نبوت کی ذمہ داری دی گئی ، ان کا انتقال  آپ ﷺ کے بچپن ہی میں ہو گیا، لہذا ان پر صحابی کی  تعریف صادق نہیں آتی، اس اعتبار سے ان کے لیے "رضی اللہ عنہ" کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے،  البتہ ان کا نام ادب و احترام سے لینا  چاہیے  کہ وہ اپنے  زمانے کے نیک لوگوں میں سے تھے، اور اہلِ علم کی تصریح کے مطابق بت پرستی سے بے زار اور دینِ فطرت پر تھے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں