بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عبد المنان کو منان کہنا


سوال

ایک شخص کا نام 'عبدالمنان 'ہے، وہ کہتا ہے کہ "مجھے منان مت کہا کرو، یہ اللہ کا نام ہے ،میرا نام نہیں ہے اور نہ ہی میری صفت ہے، مجھے میرے پورے نام سے پکارو "،کیاکسی اور کو اللہ کی صفت سے کہنا شرک ہے ؟

جواب

اللہ تعالی کے وہ صفاتی نام جن کے ساتھ ’’عبد‘‘لگانا ضروری ہے ،اور وہ نام جن کے ساتھ ’’عبد‘‘لگانا ضروری نہیں ہے ،ان کے بارے اصول یہ ہے کہ ہر وہ نام جو قرآن وحدیث،تعامل امت یا عرف عام  میں اللہ  تعالی کے علاوہ  دوسرے لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہو جیسے:رحیم، رشید، کریم وغیرہ، توایسے ناموں کے ساتھ لفظ ’’عبد‘‘ لگائے بغیر بھی استعمال کرنا درست ہے، اور ہر وہ نام جو قرآن وحدیث،تعامل امت یا عرف عام   میں اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال نہیں ہواہو، جیسے:رحمن، سبحان، رزاق وغیرہ، تو ایسے ناموں کے ساتھ استعمال کے وقت ’’عبد‘‘لگانا ضروری ہے، بصورت دیگر گناہ گار ہوگا۔

صورت مسئولہ میں ’’ منان ‘‘ بھی اللہ تعالی کے ان صفاتی ناموں میں سے ہے ،جس کااطلاق  قرآن وحدیث ،تعامل امت یا عرف عام میں غیر اللہ پر بھی ہواہے ،لہذ ا لفظ ’’ عبد ‘‘ کے اضافہ کے بغیر بھی منان نام سے پکارنا  جائز ہے ،بشرط یہ کہ پکارنے والا اس سے وہ معنی مراد نہ لے جو اللہ تعالی کی شان کو لائق ہیں ،لیکن پھر بھی اولی ٰ یہی ہے کہ لفظ ’’عبد ‘‘ کے ساتھ پکارا جائے۔

البتہ اگر عبدالمنان نامی شخص اس بات کو برا محسوس کرتا ہوکہ کوئی اس کو ادھورے نام سے پکارے ،اور پکارنے والے کو یہ بات معلوم بھی ہو،تو ایسی صورت میں  پکارنے والے  پر لازم ہے کہ وہ اس کو مکمل نام(عبدالمنان ) سے ہی پکارے ،کیوں کہ کسی مسلمان کا دل دکھانا بھی شرعاً جائز نہیں ہے ۔

تفسیرالطبری میں ہے:

"وكان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضاً بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء ، كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني".

(تفسير الطبري جامع البيان: سورة الفاتحة، ج:1ص: 133، ط: مؤسسة الرسالة)

مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے :

عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌لا ‌يدخل ‌الجنة ‌منان."

(کتاب الادب،ماجاءفی المنان،ج:14،ص:503،رقم الحدیث:28289،ط:دار كنوز)

الدر المختار میں ہے:

"(أحب الأسماء إلى الله تعالى عبد الله وعبد ‌الرحمن) وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية."

وفي الشامية تحته:

"قوله وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل.

(قوله لكن التسمية إلخ) قال أبو الليث: لا أحب للعجم أن يسموا عبد ‌الرحمن وعبد الرحيم؛ لأنهم لا يعرفون تفسيره، ويسمونه بالتصغير تتارخانية وهذا مشتهر في زماننا، حيث ينادون من اسمه عبد الرحيم وعبد الكريم أو عبد العزيز مثلا فيقولون: رحيم وكريم وعزيز بتشديد ياء التصغير."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:417، ط:سعيد)

المجموع شرح المہذب میں ہے :

"(الثامنة): اتفقوا على جواز ترخيم الاسم المنتقص إذا لم يتأذّ بذلك صاحبه ثبت أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم (رخّم أسماء جماعة من الصحابة، فقال لأبي هريرة: يا أباهر، ولعائشة: يا عائش، ولأنجشة: يانجش."

(کتاب الحج،‌‌باب العقيقة،ج:8،ص:442،ط:دار الفكر)

’’آپ کےمسائل اور ان کا حل ‘‘میں مولانا محمد یوسف  لدھیانوی  رحمہ اللہ نےلکھاہے:

’’عبد کا لفظ ہٹاکر اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ بندے کو پکارنا نہایت قبیح ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام دو قسم کے ہیں:ایک قسم ان اسمائے مبارکہ کی ہے جن کا استعمال دوسرے کے لیے ہو ہی نہیں سکتا، جیسے:اللہ، رحمن، خالق، رزّاق وغیرہ، ان کا غیراللہ کے لیے  استعمال کرنا قطعی حرام اور گستاخی ہے، جیسے کسی کا نام ’’عبداللہ‘‘ ہو اور’’عبد‘‘کو ہٹاکر اس شخص کو ’’اللہ صاحب‘‘کہا جائے، یا ’’عبدالرحمن‘‘کو’’رحمن صاحب‘‘ کہا جائے، یا ’’عبدالخالق‘‘ کو’’خالق صاحب‘‘ کہا جائے، یہ صریح گناہ اور حرام ہے۔‘‘

(کتاب الحظر والاباحہ، ج:8،ص:269، ط:مکتبہ لدھیانوی)

 مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’کہ اسماء حسنی میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن وحدیث میں دوسرے لوگوں کے لیےبھی استعمال کیا گیا ہے،اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالی کے  اور کسی کے لیے استعمال کرنا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں، تو جن ناموں کا استعمال غیراللہ کے لیے قرآن وحدیث سے ثابت ہے، وہ نام تو اوروں کے لیے بھی استعمال ہوسکتے ہیں، جیسے:رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ اور اسما ءحسنی میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ  کےلیے استعمال کرنا قرآن وحدیث  سےثابت نہیں وہ صرف اللہ تعالی کےلیے مخصوص ہیں ان کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا الحاد مذکور میں داخل اور ناجائز وحرام ہے، مثلا: رحمن، سبحان، رزاق، خالق، غفار، قدوس وغیرہ۔‘‘

(معارف القرآن،سورۃ الاعراف،ج:4، ص:132، ط: مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں