بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عبد کی اضافت کے بغیر اللہ کے صفاتی نام رکھنے کا حکم


سوال

1۔میرے بھائی بہن، والد اور والدہ سب بریلوی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن میں بریلوی نہیں ہوں، وہ سب میرے کہنے کے باوجود مشرکانہ الفاظ بولتے ہیں، مثلاً"یاعلی مدد"، یاغوث اعظم" وغیرہ ، تو اگر یہ الفاظ میں نے غلطی سے سن لیے یا میرے کان میں گئے، تو کیا مجھے اس کا گناہ ملے گا؟

2۔ "جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن" کی ویب سائٹ پر ایک  فتوی موجود ہے کہ اگر ہم "عبد الرحمٰن، عبد الرزاق، عبد الغفار یا عبد السبحان" کو عبدل کے بغیر صرف "رحمٰن، رازاق، غفار یا سبحان" کہیں، تو سننے والے کو بھی گناہ ملے گا، تو اگر کسی کا نام ان  ناموں میں سے نہ ہو اور اس نے سن لیا، مثلاً کسی کا نام طہٰ ہے، اب اس نے کسی کو رحمٰن کہتے ہوئے سن لیا، تو کیا اسے بھی گناہ ملے گا؟ اگر چہ چانے انجانے میں اس کے کان میں یہ الفاظ گئے ہوں۔

3۔ میرا نام باسط حسین ہے، تو میں نے آپ کی ویب سائٹ سے فتویٰ لیا تھا کہ اگر کسی کو باسط کہیں، تو یہ جائز ہے، لیکن پسندیدہ نہیں ہے، اب میرے سب کاغذات میں میرا نام یہی ہے اور لوگ مجھے باسط حسین کے نام سے پکارتے ہیں، تو کیا مجھے اس کا گناہ ملے گا ؟ اور پسندیدہ  نہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ تبدیل کروانا ضروری ہے؟ 

4۔ نیز اللہ کے خاص نام جس کے ساتھ عبد لگانا ضروری ہے،ان ناموں کو ایک ساتھ لکھ کر بتادیں۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ کلمات کےسننے پر سائل راضی نہ ہو اور ارادی طور پر نہ سُنے بلکہ  غیر ارادی طور پر یہ الفاظ کانوں میں پڑجائیں، تو سائل گناہ گار  نہیں ہوگا۔

2۔ صورتِ  مسئولہ میں اگر ایسا نام جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہو اور اس نام کے ساتھ پکارتے ہوئے اگر کسی کو سُن لیا، تو سُننے والا اس صورت میں گناہ گار ہوگا کہ جب وہ باوجود علم ہونے کے کہ پکارنے والا غلطی کر رہا ہے، پھر بھی اس غلطی کو صحیح سمجھ کر سن رہا ہو، بصورتِ دیگر سننے والا گناہ گار نہیں ہوگا۔

3۔ واضح رہے کہ باسط اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے  ایسا نام ہے کہ قرآن و حدیث میں جس کا استعمال اللہ اور غیر اللہ دونوں کے لیے کیا گیا ہے، لہٰذا باسط نام رکھنا جائز ہے، لیکن جب یہ نام مخلوق کے لیے استعمال ہوگا تو اس میں وہ معانی مراد نہیں ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے لائق شان ہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ عبد کے ساتھ ہی نام رکھا جائے اور بغیر عبد کے باسط نام رکھنے کے ناپسندیدہ ہونے کا یہ مطلب یہ ہے کہ  چوں کہ عوام الناس اس نام کے اللہ اور غیر اللہ کے لیے استعمال کرنے میں تمییز نہیں کرتے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے وہ صفاتی نام جو غیر اللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہوں، ان کو بغیر عبد کی اضافت کے رکھنا بھی جائز ہے، لیکن پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر سائل کا نام باسط حسین ہے اور باسط نام رکھنا فی نفسہ جائز بھی ہے، تو سائل کو اپنا نام تبدیل کرنا لازم نہیں ہے۔

4۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے  صفاتی ناموں کی دو قسمیں ہیں:ایک  وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، جو قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہیں  ان ناموں کو عبد کی اضافت کے بغیر رکھنا جائز نہیں ہے۔

دوسرے  وہ صفاتی نام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہیں، وہ  نام ”عبد “ اضافت کے بغیر بھی رکھے جاسکتے ہیں۔

باقی  آپ کے اس سوال کا تفصیلی جواب جامعہ سے جاری شدہ فتوی (جو کہ ہماری ویب سائٹ پر بھی جاری ہے) جس کا نمبر یہ ہے: 144312100522 میں دیا جاچکا ہے، تفصیل وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

نوٹ: جامعہ میں جو استفتاء   بھیجا جاتا ہے، اس کا جواب  جامعہ کی طرف سے ضرور جاری کیا جاتا ہے، البتہ بعض اوقات تحقیقی مراحل میں ہونے کی وجہ سے اور سوالات کی کثرت کی وجہ سے تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ایک سوال ایک مرتبہ بھیجنے کے بعد دوبارہ وہی سوال بھیجنے سے اجتناب کریں۔

تفسیرالطبری  میں ہے:

"وكان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضاً بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء ، كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني."

(سورة الفاتحة، ج:1، ص:133، ط:مؤسسة الرسالة)

الدر المختار میں ہے:

"(أحب الأسماء إلى الله تعالى عبد الله وعبد ‌الرحمن) وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية."

وفي الشامية تحته:

"قوله وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل.

(قوله لكن التسمية إلخ) قال أبو الليث: لا أحب للعجم أن يسموا عبد ‌الرحمن وعبد الرحيم؛ لأنهم لا يعرفون تفسيره، ويسمونه بالتصغير تتارخانية وهذا مشتهر في زماننا، حيث ينادون من اسمه عبد الرحيم وعبد الكريم أو عبد العزيز مثلا فيقولون: رحيم وكريم وعزيز بتشديد ياء التصغير."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:417، ط:سعيد)

آپ کےمسائل اور ان کا حل میں مولانا محمد یوسف  لدھیانوی  رحمہ اللہ نےلکھاہے:

’’عبد کا لفظ ہٹاکر اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ بندے کو پکارنا نہایت قبیح ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام دو قسم کے ہیں:ایک قسم ان اسمائے مبارکہ کی ہے جن کا استعمال دُوسرے کے لیے ہو ہی نہیں سکتا، جیسے:اللہ، رحمن، خالق، رزّاق وغیرہ۔ ان کا غیراللہ کے لیے  استعمال کرنا قطعی حرام اور گستاخی ہے، جیسے کسی کا نام ’’عبداللہ‘‘ ہو اور’’عبد‘‘کو ہٹاکر اس شخص کو ’’اللہ صاحب‘‘کہا جائے، یا ’’عبدالرحمن‘‘کو’’رحمن صاحب‘‘ کہا جائے، یا ’’عبدالخالق‘‘ کو’’خالق صاحب‘‘ کہا جائے، یہ صریح گناہ اور حرام ہے۔‘‘

(کتاب الحظر والاباحہ، ج:۸،ص:۲۶۹، ط:مکتبہ لدھیانوی)

معارف القرآن میں ہے:

’’یہ سب ناجائز وحرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے جتنی مرتبہ پکارا جاتاہے اتنی ہی مرتبہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوتاہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا۔‘‘

(معارف القرآن، ج:4، ص:133، سورہ: الاعراف، ط:مکتبہ معارف القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں