بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عبا سی شخص کا زکوٰۃ لینا؟


سوال

ایک شخص صرف اپنے خاندان کے مشہور ہونےکی وجہ سے عباسی کہلاتا ہے یعنی  اس کو اپنے نسب کا پتہ ہی نہ ہو اور پورے خاندان میں کسی کو اس بات کا علم نہ  ہوکہ ہمارا شجرہ نسب حضرت عباس تک پہنچتا ہے یا نہیں اور وہ خود مقروض ہو یعنی اس کے اوپر بہت قرضے ہو  ں تو اس کے لیے زکوۃ لینا جائز ہے   یا نہیں؟     نیز ا گر وہ قرض ادا کرنے کی نیت سے کسی صاحب نصاب کو کہے کہ آپ        زکو  ۃمجھے دیں تاکہ میں      اس  سے اپنا قرض ادا کروں تو یہ اس کے لیے جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے  کہ   عبا سی خاندان (آل عبا س) بنو ہا شم کا ان پا نچ  خاندانوں میں سے  ایک ہے جنہیں زکو ۃ نہیں دی جا سکتی،اور  جو  لوگ واقعۃ  آل عبا س سے ہوں یا ان کی اولاد میں  سے مشہور ہو ں تو انہیں زکو ۃ نہیں دی جا سکتی۔ان کے لئے عبا سی ہو نے کے لئے اتنی شہرت کا فی ہے،اگر چہ ان کے پاس نسب نامہ محفوظ نہ ہو،لہذا سائل واقعۃ اگر آل عبا س میں سے ہے یا ان  کی اولاد میں سے  مشہور ہےتو اس  کے لئے قرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ لینا جائز نہیں۔البتہ نفلی  صدقات وصو ل کر سکتا ہے،اسی طرح کوئی غیر سیدمستحق زکوۃ،زکوۃ لے کراپنی طرف سے سائل کو ہدیہ کر دے تو  وہ رقم بھی سائل کے لئے جا ئز ہے۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يدفع إلى ‌بني ‌هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من ‌بني ‌هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي."

(کتاب الزکوۃ،الباب السابع فی المصارف،ج1،ص189،دار الفکر ۔بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته ‌وهم ‌بنو ‌لهب فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب، ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع، "

"(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعة وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعة انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب فإنه أعقب اثني عشر تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي إذ لا تحرم عليهم كلهم بل على بعضهم ."

(کتاب الزکوۃ،باب مصرف الزکوۃ،ج2،ص350،ط:ایچ ایم سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ولا يجوز للشاهد أن يشهد بشيء لم يعاينه) أي لم يقطع به من جهة المعاينة بالعين أو السماع إلا في النسب والموت والنكاح والدخول وولاية القاضي فإنه يسعه أن يشهد بهذه الأمور إذا أخبره بها من يثق به من رجلين عدلين أو رجل وامرأتين ۔۔۔وفي الفصول عن شهادات المحيط في النسب أن يسمع أنه فلان بن فلان من جماعة لا يتصور تواطؤهم على الكذب عند أبي حنيفة، وعندهما إذا أخبره عدلان أنه ابن فلان تحل الشهادة، وأبو بكر الإسكاف كان يفتي بقولهما وهو اختيار النسفي."

(کتاب الشہادات،ج3،ص388، ط:دار الفکر۔لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں