میرے بھائی کی نوکری نہیں ہے ، اور نہ ہی اُس کے پاس کوئی سیونگ ہیں، اور نہ گھر ہے اُس کا، والد کے گھر میں رہتے ہیں ہم، عباسی خاندان سے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنے بھائی کو اپنی زکوٰۃ کی رقم سے مدد کر سکتا ہوں؟ تاکہ وہ اُن پیسوں سے عید کی تیاری کرسکے اور گھر میں راشن کا سامان لے سکے۔
واضح رہے کہ بنو ہاشم یعنی حضرت عباس، حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد کو زکات دیناجائز نہیں ہے اور اسی طرح ان کا آپس میں بھی ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے البتہ ان کے لیےصدقات نافلہ لینا اور اسی طرح آپس میں ایک دوسرے کو صدقات نافلہ دینا جائز ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل اور اس کا بھائی عباسی خاندان سے ہیں، لہٰذا سائل کا اپنے بھائی کو زکات دینا جائز نہیں ہے، البتہ سائل اپنے بھائی کی مدد صدقات نافلہ سے کرسکتا ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي، وكذا لا يدفع إلى مواليهم كذا في العيني شرح الكنز. ويجوز صرف خمس الركاز والمعدن إلى فقراء بني هاشم كذا في الجوهرة النيرة."
(کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف، ج:1، ص:189، ط:دار الفکر بیروت)
المحیط البرہانی میں ہے:
"ولا يجوز أن يعطى من الزكاة فقراء بني هاشم، ولا مواليهم، قال عليه السلام «الصدقة محرمة على بني هاشم» ومولى القوم من أنفسهم، وقال عليه السلام: "يا بني هاشم إن الله تعالى كره لكم غسالة الناس، وعوضكم منها بخمس الخمس من الغنيمة". قال: وبنو هاشم الذي تحرم عليهم الصدقة آل عباس، وآل جعفر، وآل عقيل، وآل علي، وولد الحارث بن عبد المطلب؛ لأن الله تعالى إنما حرم الصدقة على من عوضه عنه خمس الخمس من الغنيمة، وهو خمس ذوي القربى، ومنهم ذوي القربى يختص هؤلاء، فكذا تحرم الصدقة، وإنما تحرم على هؤلاء الصدقة الواجبة من العشور والبذور والكفارات، فأما الصدقة على وجه الصلة والتطوع، فلا بأس؛ لأن في الواجب المؤدي نفسه بإسقاط الفرض، فيتدنس المؤدى بمنزلة من استعمل الماء في الوضوء، وهو معنى قوله يا بني هاشم "إن الله تعالى كره لكم غسالة الناس". فأما في النفل يتبرع المؤدي بأداء ما ليس عليه، فلا يتدنس المؤدى بمنزلة من تبرد بالماء وروى عن أبي يوسف: أنه جوز صرف صدقات الأوقاف إليهم إذا سموا في الوقف؛ لأن حال بني هاشم في حرمة الصدقة كحال الأغنياء، ثم يجوز صرف صدقات الوقف إلى الأغنياء إذا سموا في الوقف، فكذا إلى بني هاشم، فأما إذا لم يسموا في الوقف لا يجوز الصرف إليهم كما لا يجوز إلى الأغنياء."
(کتاب الزکاۃ، الفصل الثامن فی المسائل المتعلقة بمن توضع الزکاۃ فیه، ج:2، ص:284، ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: إطلاق المنع إلخ) يعني سواء في ذلك كل الأزمان وسواء في ذلك دفع بعضهم لبعض ودفع غيرهم لهم."
(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ و العشر، ج:2، ص:350، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509102075
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن