بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے کاروبار میں بیٹوں کا حصہ


سوال

 ہم بھائی اور والد سب کاروبار میں شریک ہیں، بعض کا علیحدہ علیحدہ کاروبار ہے،  بعض سکول اور مدرسہ پڑھتے ہیں، سب نفع نقصان میں شریک ہیں تو باپ کے فوت ہوجانے کے بعد تقسیمِ میراث کیسی ہوگی ؟

جواب

 

واضح رہے کہ جب بیٹا اپنے والد کے ساتھ  کاروبار میں حصہ لے تو وہ کاروبار اور اس سے حاصل ہونے والا سارا نفع والد کا ہوتا ہے، بیٹا والد کا معین و مددگار شمار ہوگا، اس کے لیے تین شرطیں ہیں:

1۔دونوں کا کاروبار ایک ہو، اگر والد کا  ایک اور بیٹے کا دوسرا کاروبار ہو تو ایسی صورت میں ہر ایک کی کمائی اس کی ذاتی ملکیت ہوگی۔

2۔ بیٹے کا پہلے سے کوئی مال نہ ہو۔

3۔ بیٹا والد کی عیال اور کفالت میں ہو ، اگر بیٹا والد کی کفالت میں نہ ہواور مال کمائے تو یہ مال بیٹے کا ہی ہوگا۔

اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو بیٹے کی آمدن اس کی ذاتی شمار ہوگی۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں جو بھائی والد کے ساتھ ان کے کاروبار میں ساتھ ہیں اور کاروبار میں اس کا کوئی سرمایہ شامل نہ ہوتو وہ کاروبار والد کا ہے، ان کی وفات کے بعد ورثا میں تقسیم ہوگا۔

جن بھائیوں کا علیحدہ کاروبار ہے، یعنی اپنے پیسے یا کسی سے قرضہ لے کر شروع کیا وہ کاروبار اس کی ذاتی ملکیت ہے، والد کی میراث میں تقسیم نہیں ہوگا۔

 اگر بیٹوں نے والد ہی کے کاروبار کو آگے بڑھایا تو یہ تمام والد ہی کی ملکیت ہے، ان کی وفات کے بعد تمام بیٹوں کو اس میں برابر  حصہ ملے گا، کام کرنے والے اور نہ کرنے والے میراث میں برابر ہوں گے، البتہ اگر بھائی چاہیں تو ان کی زندگی میں ان کے کاروبار میں اپنی محنت کا حصہ ان کی رضامندی سے وصول کرسکتے ہیں۔

شرح المجلہ میں ہے:

المادة (1398) : (إذا عمل أحد في صنعته مع ابنه الذي في عياله فكافة الكسب لذلك الشخص و يعد ولده معينا، كما أنه إذا غرس أحد شجرا فأعانه ولده الذي في عياله فيكون الشجر لذلك الشخص ولا يشاركه ولده فيه)

إذا عمل أحد في صنعة هو وابنه الذي في عياله واكتسبا أموالا ولم يكن معلوما أن للابن مالا سابقا فكافة الكسب لذلك الشخص ولا يكون لولده حصة في الكسب بل يعد ولده معينا وليس له طلب أجر المثل حتى أنه لو تنازع الأب في المتاع الموجود في بيته مع أولاده الخمسة الذين يقيمون معه في ذلك البيت وادعى كل منهم أن المتاع له فالمتاع للأب ولا يكون للأولاد غير الثياب التي هم لابسوها (التنقيح) ما لم يثبتوا عكس ذلك ويوجد ثلاثة شروط لأجل اعتبار الولد معينا لأبيه:

1 - اتحاد الصنعة، فإذا كان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فكسب الأب من المزارعة والابن من صنعة الحذاء، فكسب كل منهما لنفسه وليس للأب المداخلة في كسب ابنه لكونه في عياله.

وقول المجلة (مع ابنه) إشارة لهذا الشرط، مثلا إن زيدا يسكن مع أبيه عمرو في بيت واحد ويعيش من طعام أبيه وقد كسب مالا آخر فليس لإخوانه بعد وفاة أبيه إدخال ما كسبه زيد في الشركة، كذلك لو كان اثنان يسكنان في دار و كل منهما يكسب على حدة وجمعا كسبهما في محل واحد ولم يعلم مجموعه لمن كما أنه لم يعلم التساوي أو التفاوت فيه فيقسم سوية بينهما ولو كانا مختلفين في العمل والرأي

2 - فقدان الأموال سابقا، إذا كان للأب أموال سابقة كسبها ولم يكن معلوما للابن أموال بأن ورث من مورثه أموالا معلومة فيعد الابن في عيال الأب

3 - أن يكون الابن في عيال أبيه، أما إذا كان الأب يسكن في دار والابن في دار أخرى وكسب الابن أموالا عظيمة فليس للأب المداخلة في أموال ابنه بداعي أنه ليس للابن مال في حياة أبيه.

(درر الحكام، الكتاب العاشر، الباب السادس، الفصل السادس، المبحث الثاني ۳/ ۴۲۱ ط: دار الجيل) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109202493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں