بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی گاؤں میں سیر کے لیے جانے کا حکم


سوال

ہمارا گاؤں مہمند ایجنسی ہے اور وہاں ہمارے آباؤ اجداد کی زمینیں بھی موجود ہیں اور ہمارے والد صاحب کے چچا اور ہمارے دادا جان دو دو سال کے لیے گاؤں جاتے ہیں اور وہاں پر زمین اور گھر میں دو دو سال رہتے ہیں اور ہم سب لاہور میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی گاؤں جانا ہوتا ہے سیر و تفریح  کے لیے تو کیا ہم وہاں گاؤں میں مسافر  ہوں گے یا مقیم؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ گاؤں مہمند ایجنسی سے آپ کے والد اور چچا نے  مستقل طور پر اپنا  تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا تو وہ ان کے لیے وطن اصلی ہے، لیکن آپ کی مستقل رہائش لاہور میں ہے، اسی کو اپنا وطن اصلی بنا لیا ہے، اسی کو اپنا وطن اصلی بنا لیا ہےتو  مذکورہ گاؤں  آپ کے لیے وطنِ اصلی نہیں ہوگا، لہذا  آپ جب اس گاؤں میں 15 دن سے کم سیر و تفریح کے لیے جائیں گے تو  آپ   مسافر ہوں گے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے: 

"و الوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارًا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها و هذا الوطن يبطل بمثله لا غير، و هو أن يتوطن في بلدة أخرى و ينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنًا أصليًّا حتى لو دخله مسافرًا لايتم ... و لو كان له أهل بالكوفة، و أهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة و بقي له دور وعقار بالبصرة قيل: البصرة لاتبقى وطنًا له؛ لأنها إنما كانت وطنًا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنًا له."

(ج:2،  ص:147، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے :

’’سوال : ایک شخص اپنے والد کی جائے سکونت سے دور دراز فاصلہ پر رہتا ہے، اگر بیٹا باپ کی جائے سکونت میں یا باپ بیٹے کی جائے سکونت میں جاوے تو قصر پڑھیں گے یا نہیں؟

جواب : جب کہ وطن اصلی ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ ہوگیا ہے تو ہر ایک ان میں سے دوسرے کے وطن میں جانے سے مقیم نہ ہوگا، بلکہ قصر نماز پڑھے گا۔‘‘

(ج:4،   ص:327)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں