بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اب کبھی پہلی بیوی سے تعلق قائم نہیں کروں گا کہنے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے میری پہلی شادی زبردستی کروائی تھی، میں نے غصے میں ملک چھوڑ دیا تھا، وہ بیوی ہمارے گھر میں رہتی رہی، پھر میں پاکستان آتا جاتا رہا، اس بیوی سے دو بیٹیاں ہوئیں، لیکن میرا اس کے ساتھ کبھی دل نہیں ملا، وہ بالکل جاہل، دینی و دنیوی دونوں تعلیمات سے جاہل تھی، اس کے بعد میرے والد صاحب نے میری دوسری شادی کروا دی، پہلی بیوی کو میں نے تحریری طور پر باہر ملک سے ہی ایک طلاق لکھ کر بھیج دی، جس کے الفاظ یہ تھے: "میں ایک طلاق دیتا ہوں"، وہ میرا گھر چھوڑ کر چلی گئی، پھر میں دو سال بعد پاکستان آیا اور یہیں رہنے لگ گیا، پہلی بیوی سے میری دونوں بیٹیاں جوان ہو گئی ہیں، نیز میرے بڑے بھائی کی بیوی اور میری پہلی بیوی دونوں بہنیں ہیں، میری بیٹیوں اور میرے بھائی نے مجھ پر دباؤ ڈالا کہ میں اپنی پہلی بیوی کو واپس لے آؤں، چنانچہ اپنی بیٹیوں اور بھائی کی ضد اور دباؤ پر 17 سال کے بعد میں پہلی بیوی کے ساتھ  نکاح کر کے واپس لے آیا، واضح رہے کہ نکاح سے پہلے اس معاملے پر بھائی کے ساتھ کئی دفعہ جھگڑوں میں، میں نے اس بیوی کے بارے میں یہ الفاظ کہے تھے: اس کو آزاد کر دیا، اس کو چھوڑ دیا، جہاں مرضی شادی کرلے، میں واپس نہیں لاؤں گا، یہ تمام الفاظ میں نے محض خبر دینے کی نیت سے کہےتھے، طلاق دینے کی میری کوئی نیت نہیں تھی، اور پہلی طلاق کی عدت گزرنے کے کافی عرصے بعد کہے تھے، نیز میں نے جو تحریری طور پر ایک طلاق دی تھی، وہ بھی ایک مفتی صاحب کے مشورے کے بعد دی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ایک طلاق دے دو، تین حیض گزر جانے پر خود ہی نکاح ختم ہو جائے گا، اس لیے میں خوش تھا کہ نکاح ختم ہو گیا، اب رجوع نہیں ہوسکتا،  لیکن بھائی نے بتایا کہ تم اس کو دوبارہ لا سکتے ہو، دوبارہ لے آؤ، چنانچہ بھائی کے ساتھ جا کر اس کے ساتھ نکاح کر کے لے آیا، یہ سارا معاملہ دوسری بیوی سے چھپائے رکھا، جن دنوں میری دوسری بیوی بیڈ ریسٹ پر تھی، اس دوران پہلی سے میں نے دو مرتبہ تعلق بھی قائم کیا، لیکن میں نے اندازہ لگا لیا کہ میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا، کچھ عرصے میں یہ بات دوسری بیوی کو پتہ چل گئی، وہ میرے پاس سے چلی گئی کہ میں نے اس کو دھوکہ دیا ہے، جب کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں، اسے خوش رکھتا ہوں، علاقے کے مفتی صاحب کے سمجھانے پر یہ دوسری بیوی آگئی، لیکن اس نے کہا کہ بیوی والا تعلق اب صرف پہلی بیوی سے قائم کریں، میں اپنے گھر والوں کی عزت اور آپ کی محبت سے مجبور ہو کر آئی ہوں، لیکن میں کیا کرتا، میں تو پہلی بیوی کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتا تھا، میں نے دوسری بیوی کے سامنے قرآن اٹھا کر قسم کھائی کہ میں اب کبھی پہلی بیوی سے تعلق قائم نہیں کروں گا، صرف تم سے قائم کروں گا، یہ قسم فروری 2023ء میں کھائی تھی، اس کے بعد میں نے کبھی پہلی بیوی سے تعلق قائم نہیں کیا، وہ میری بیٹی کے ساتھ میرے بھائی کے ہاں رہتی رہی، بچیوں کی وجہ سے اس کے پاس آنا جانا تو تھا، بات چیت بھی ہوتی تھی، میں اس بیوی اور اپنی  بچیوں کا خرچہ بھی اٹھاتا ہوں، لیکن فروری 2023ء کے بعد سے کبھی ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا، اب وہ پہلی بیوی اپنے حقوقِ زوجیت مانگتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ قسم کھانے سے اور پھر اتنا عرصہ اس بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنے سے کیا اس بیوی پر ایلاء  والی طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟

اگر ہو گئی ہے تو کیا میں اس کو بتاؤں کہ عدت گزارے یا نہ بتاؤں؟واضح رہے کہ وہ حمل سے نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر چار مہینے یا اس سے زیادہ بیوی سے دور رہنے کی قسم کھائے تو شرعاً ’’ایلاء‘‘ منعقد ہوجاتا ہے، اس کے بعد اگر چار مہینوں کے اندر اندر شوہر اپنی بیوی سے صحبت کرے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوجاتا ہے، البتہ بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ، اور اگر شوہر اپنی بیوی سے صحبت نہ کرے یہاں تک کہ چار مہینے مکمل گزر جائیں تو بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے، شوہر پر کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں ہوتا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے فروری 2023ء میں اپنی دوسری بیوی کے  سامنے اپنی پہلی بیوی کے بارے میں یہ جملہ قسم کھا کر کہا کہ:میں اب کبھی پہلی بیوی سے تعلق قائم نہیں کروں گا، صرف تم سے قائم کروں گا، تو اس سے ایلاء منعقد ہوگیا تھا اور پھر چار مہینے  تک اس بیوی کے ساتھ ازداجی تعلق قائم نہیں کیا تو ایسا کرنے سے اس بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو گئی تھی، اور چار مہینے گزرنے پر طلاق واقع ہوتے ہی عدت شروع ہو گئی تھی، جو تین ماہواریوں کے پورا ہونے پر مکمل ہوچکی ہے، البتہ طلاق واقع ہونے کے بعد اب تک اگر تین ماہواریاں مکمل نہیں ہوئی تو تین ماہواریوں کے پورا ہوتے ہی عدت مکمل ہو جائے گی۔

اگر عدت مکمل نہیں ہوئی تو عدت کے بارے میں بتا دیا جائے کہ عدت مکمل کرلے،اور اگر مکمل ہوچکی ہے تو  اس کے بعد اگر دونوں تجدید نکاح پر رضامند ہیں تو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی گنجائش ہوگی، تجدید نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو) لغة اليمين. وشرعا (الحلف على ترك قربانها) مدته... وركنه الحلف(وشرطه محلية المرأة) بكونها منكوحة وقت تنجيز الإيلاء... (وأهلية الزوج للطلاق)...(وحكمه وقوع طلقة بائنة إن بر) ولم يطأ."

(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ج:٣، ص:٤٢٤، ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"وحكمه ‌لزوم ‌الكفارة أو الجزاء المعلق بتقدير الحنث بالقربان، ووقوع طلقة بائنة بتقدير البر."

(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ج:٤، ص:١٨٩، ط:دارالفكر)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"اگر زید نے قسم کھائی کہ چار ماہ یا زیادہ مدت تک بیوی کے پاس نہیں جائے گا یا اور کوئی ایسا لفظ کہا جو صیغۂ ایلاء  صریح یا کنایہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہو، یعنی اس سے حرمتِ جماع مفہوم ہو، یا بیوی کے ساتھ صحبت کو کسی ایسے فعل کے ساتھ معلق کیا جس سے مشقت ہے، مثلاً: یوں کہا کہ اس سے صحبت کروں تو اس کو طلاق، تو یہ ایلاء ہے، اس صورت میں چار ماہ تک صحبت نہ کرنے سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔"

(کتاب الطلاق، باب الایلاء، ج:5، ص:373، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101954

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں