بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام، چھوڑدیا اور آزاد سے طلاق کا حکم


سوال

 مسئلہ کچھ یوں ہے  کہ میری دو بیویاں ہیں ،ایک سے شادی کو 15 سال ہو گئے ہیں اور اس سے ایک بیٹا ہے 14 سال کا جب کہ دوسری بیوی سے  شادی کو 2 سال ہوچکے ہیں  اور اس سے کوئی اولاد نہیں ہے، میری پہلی بیوی بہت بدزبان ہے اور بعض ِ اوقات بہت  زیادہ  پریشان کن حالات ہو جاتے ہیں ،ایک بار بیوی لڑ رہی تھی ا ور مجھے نیند آ رہی تھی تو میں نے جان چھڑانے کے لیے بولا "تم حرام ہو "اور جاؤ مجھے سونےدو ، یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے ،نہ میرا طلاق کا ارادہ تھا اور نہ چھوڑنے کا، کیا میری پہلی بیوی پر طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں ؟

2۔ میری دوسری شادی کے کچھ عر صہ بعد میری پہلی بیوی ناراض ہو کر گھر چھوڑ  کرمیرے بیٹے کو لے کر چلی گئی تھی،  میں اس کو منانے کے لیے جاتا ،اس کا ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ  دوسری بیوی کو طلاق دو تو میں واپس  آ جاؤں گی، میں نے اس کومنانے کے لیے کئی متعدد بار جھوٹ بولا کے میں نے اس  دوسری بیوی کو چھوڑ  دیا ہے، تم گھر واپس چلو ، ایسا میں نے کئی بار اور مختلف اوقات  میں  بولا،   میری نیت نہ طلاق کی تھی نہ  چھوڑنے کی ،کیا  ان الفاظ سے میری دوسری بیوی کو طلاق ہو ئی ہے یا نہیں؟

3۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ  میں نے دونوں بیویوں کو بولا تھا کہ اگر میں ایک بیوی کوطلاق دوں گا تو دوسری بیوی کو بھی طلاق ہو جائے گی ،کیا اس سے  میری دونو ں بیویوں کوطلاق  ہو  چکی ہے ؟اوریہ قسم میں نے کچھ عرصہ پہلے بولی اور مسئلہ نمبر 2 پہلے ہی ہو چکا تھااس صورت  میں اگر میری دوسری بیوی کو پہلےہی طلاق ہو چکی  تو کیا قسم قائم ہو سکتی ہے ؟

4۔میں نے اپنی دوسری بیوی کو اس کی کسی  غلطی پرغصے میں بولا  کہ " تم دونوں  ایک جیسی ہو اور میری طرف سے تم دونو ں آزاد ہو اور جو چاہے کرو" دراصل میری پہلی بیوی مجھ پر  کافی عرصے  سے دباؤ ڈال رہی تھی کہ میں دوسری بیوی کوطلاق دے دوں اور میری پہلی بیوی بھی میرے  ساتھ کافی زائد   بدکلامی کر چکی تھی تو اس وجہ سے میں نے دوسری بیوی کو بولا کہ  "تم دونوں  ایک جیسی ہو اور میری طرف سے آزاد ہو اور جو دل کرتا ہے کرو ،میں جا رہا ہوں تم لوگوں کو چھوڑ کر"اس وقت  میرے دل میں یہی خیال تھا  کہ  جائیں دونوں  ہی جائیں مجھے چھوڑ کر، زندگی میں سکون تو آئے،کیا میری دونو ں بیویوں کوطلاق ہو گئی ؟ ان سب باتوں کے ہونے سے پہلے بلکہ  جمعہ  کے دن تک مجھے علم نہیں تھا کے طلاق ایسے بھی ہو جاتی ہے یہ  سب مجھے اس جمعے کو انٹرنیٹ پر کچھ ڈھونڈ تے ہوئے  اچانک سامنے آیا ،اور ذہن میں خیال آیا کے غلط ہو گیا ہے اور اب گناہ ہو رہا ہے. ؟براۓ مہرابی میری رہنمائی فرمائیں.کیا طلاق ہو چکی ہے اگر ہاں تو کتنی بار اور رجوع کا موقع ہے یا نہیں ؟

جواب

1۔''حرام'' کالفظ صریح بائن ہے،یعنی اس سے بلانیت ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے،لہذا صورت مسئولہ میں جب  سائل نے اولاً اپنی  پہلی بیوی کویہ کہاکہ "تم حرام ہو اور جاؤ مجھے سونےدو "تواس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے،البتہ طلاق بائن کی وجہ سے عورت نکاح سے نکل گئی اس لیے بعد میں سائل نے اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ملاکر پہلی بیوی کے لیے بھی جو الفاظ کہے یعنی "تم دونوں  ایک جیسی ہو اور میری طرف سے آزاد ہو اور جو دل کرتا ہے کرو" تو ان الفاظ  سے اس بیوی پر  مزیدکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لیے کہ طلاق بائن،بائن سے ملحق نہیں ہوتی۔لہذا  سائل کی پہلی بیوی پر صرف ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے اوردونوں کانکاح ٹوٹ چکاہے،اب اگردوبارہ ساتھ رہناچاہیں توباہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر  کے تقرر کے ساتھ  نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔البتہ آئندہ کے لیے  سائل کوصرف دوطلاق کاحق حاصل ہوگا۔

2۔  سائل نے اپنی پہلی بیوی کو خوش کرنے کے واسطے  جھوٹ جب   دوسری بیوی کے متعلق کہا" میں نے اسے چھوڑدیا ہے" سائل  کے بقول وہ یہ جملہ متعدد بار کہہ چکے ہے تو یہ جملہ اگر وہ  تین بار   اداکرچکا ہے اگرچہ  یہ جھوٹ کے طورپر ہی اداکیا ہو  تب بھی ایسی صورت میں سائل کی دوسری بیوی پر  تینوں طلاق واقع ہوچکی ہیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ    رجوع ہوسکتاہے اور نہ ہی تجدید ِ نکاح   کی  کوئی گنجائش ہے، عدت کے گزرنے کے بعد بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر."

(ج:3، ص: 252، ط: سعید)

وفيه أيضا:

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح... (لا) يلحق البائن (البائن)"....

"(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن".

(‌‌‌‌كتاب الطلاق، باب الكنايات، 3/ 308- 306، ط:سعید)

منحۃ الخالق علی البحرائق میں ہے:

"سأل شيخ الإسلام أبو السعود العمادي مفتي الروم عما صورته ما قول شيخ الإسلام في رجل قال علي الطلاق أو يلزمني الطلاق هل هو صريح أو كناية فأجاب بقوله ليس بشيء منهما وسأل بعض المتأخرين أيضا عما صورته ما قولكم - رضي الله تعالى عنكم - في زيد قال علي الطلاق ثلاثا لا أشغل عمرا وبكرا عندي فإذا أشغلهما بعد ذلك عنده فهل يقع عليه الطلاق أو لا فأجاب بما صورته في البزازية طلاقك علي واجب أو لازم أو فرض أو ثابت قيل يقع واحدة رجعية نوى أو لا، والمختار عدم الوقوع ولو قال طلاق علي لا ولو قال عليك الطلاق يقع إذا نوى اهـ.

كلام الرملي لكن قال في المنح: في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره فيجب الإفتاء به من غير نية كما هو الحكم في ‌الحرام ‌يلزمني وعلي الحرام وممن صرح بوقوع الطلاق به للتعارف الشيخ قاسم في تصحيحه وإفتاء أبي السعود مبني على عدم استعماله في ديارهم في الطلاق أصلا كما لا يخفى."

(ج:3، ص: 272، ط: دارالکتاب الاسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: " رهاكردم " أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت". 

(ج:3، ص: 299، ط: سعید)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا القعنبي، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن عبد الرحمن بن حبيب، عن عطاء بن أبي رباح، عن ابن ماهك، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النكاح، والطلاق، والرجعة".

(سنن أبي داود، ج: 2، صفحہ: 259، رقم الحدیث: 2194، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولوأقر بالطلاق كاذباً أوهازلاً وقع قضاءً لا ديانة".

(کتاب الطلاق، ج: 3، ص: 236، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".

(ج:1، ص: 473، ط: دارالفکربیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں