بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعضاء کی ٹرانسپلاٹیشن کی وصیت کرنے یا ورثاء کی اجازت سے کرنے کا حکم


سوال

اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن جائز ہے؟ اگر کوئی شخص وصیت کر جائے کہ اس کے اعضاء وقف کر دیۓ جائیں تو کیا اس کے شخص کہ انتقال کے بعد اعضاء نکال سکتے ہیں ؟ اور اگر فوت شدہ شخص نے وصیت نہ کی ہو تو کیا پھر اس کے اعضاء اس کے وارثوں کی اجازت سے نکال سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ انسان کا جسم  اور اس کے تمام اعضا اور ہر ہر چیز  خالص اللہ تعالی کی ملکیت ہے،انسان کی ملکیت نہیں ہے،لہذا انسان کو اپنے جسم اور اعضاء سے  صرف اپنے لیے کام لینے اور  نفع اٹھانے کی اجازت ہے،صرف اس حد تک جس کی اللہ تعالی نے اجازت دی ہے،لہذا کوئی انسان اگر اپنے اعضاء کسی اور کو دینا ( ڈونیٹ  کرنا )  چاہے،اپنی زندگی میں یا اپنی موت کے بعد تو شرعاً ایسا  نہیں کرسکتا،اگر کرے گا تو گناہ گار ہوگا، کیوں  کہ کوئی بھی انسان   اپنے  جسم کا مالک  نہیں ہے، اللہ تعالی اپنے اعضا کسی اور کو دینے (ڈونیٹ کرنے )کی اجازت نہیں  دی ہے، نیز دین و اسلام میں جس طرح  زندہ انسان محترم ہے بالکل اسی طرح مردہ انسان بھی معزز و مکرم  ہے، لہذا زندہ اور مردہ دونوں کے اعضا کسی اور کو نہیں لگاۓ جا سکتے،

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی شخص کے لیے اپنے اعضاء مرنے کے بعد کسی اور کو دینے کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہے، اور نہ ہی مرنے کے بعد میت کے  ورثاء کو اس عمل کا اختیار ہے، لہذا ورثاء کی اجازت سے بھی مذکورہ عمل کرنا ناجائز ہے۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"‌ويؤخذ منه ‌أن ‌جناية ‌الإنسان على نفسه كجنايته على غيره في الإثم لأن نفسه ليست ملكا له مطلقا بل هي لله تعالى فلا يتصرف فيها إلا بما أذن له فيه."

(كتاب القدر،قوله باب من حلف على الشيء،ج:11، ص:539،ط:دار المعرفة )

حديث شریف  میں ہے:

"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كسر ‌عظم ‌الميت ككسره حيا".

(سنن ابن ماجة، كتاب الجنائز، باب في النهي عن كسر عظام الميت، ج:1، ص:516، دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردہ انسان کی ہڈی توڑنے میں ایسا گناہ ہے جیسا کہ زندہ انسان کی ہڈی توڑ نے میں گناہ ہے۔"

  مرقاۃ المفاتیخ شرح مشکوۃ المصابیح میں  ہیں:

"«كسر عظم الميت ‌ككسره ‌حيا» يعني في الإثم كما في رواية. قال الطيبي: إشارة إلى أنه لا يهان ميتا، كما لا يهان حيا. قال ابن الملك: وإلى أن الميت يتألم. قال ابن حجر: ومن لازمه أنه يستلذ بما يستلذ به الحي اهـ. وقد أخرج ابن أبي شيبة عن ابن مسعود قال: أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته." (رواه مالك وأبو داود)

(كتاب الجنائزباب دفن الميت،ج:3، ص:1226،دار الفكر، بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله لأنها حينئذ وصية بالمكروه) مقتضاه أنه يشترط لصحة الوصية عدم الكراهة، وقدم أول الوصايا أنها أربعة أقسام وأنها مكروهة ... ومقتضى ما هنا بطلانها، اللهم إلا أن يفرق بأن الوصية إما صلة أو قربة وليست هذه واحدة منهما فبطلت".

(کتاب الوصایا، باب الوصیۃ للاقارب، ج:6، ص:690، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں