"لکم دینکم ولی دین" کا مطلب اور تفسیر کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے تمہارا دین ہے میرے لیے میرا دین یا یہ مطلب صحیح ہے تم کو تمہارے کام کا بدلہ ملے گا مجھ کو میرے کام کا بدلہ ملے گا راہ نمائی فرمائیں؟
بیان القرآن میں ہے:
"سبب نزول اس سورت(الکافرون)کا یہ ہے کہ ایک بار چند رؤساۓکفار نےآپ(علیہ الصلاۃ والسلام)سے عرض کیاکہ آئیے ہمارے معبودوں کی آپ عبادت کیا کیجئے اور آپ کے معبود کی ہم عبادت کیا کریں جس میں ہم اور آپ طریق دین میں شریک رہیں جونسا طریقہ ٹھیک ہوگا اس سے سب کو کچھ کچھ حصہ مل جاوے گااس پر یہ سورت نازل ہوئی۔"
(ج:3، ص:691، ط:مکتبہ رحمانیہ لاہور)
اسی میں مذکورہ آیت کریمہ"لكم دينكم ولي دين"(الكافرون:٦) کا یوں ترجمہ کیا گیا ہے:
"تم کو تمہارابدلہ ملےگا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا۔"
(ج:3، ص:691، ط:مکتبہ رحمانیہ لاہور)
تفسیر عثمانی میں ہے:
"حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں"یعنی تم نے ضد باندھی اب سمجھاناکیافائدہ کرے گاجب تک اللہ فیصلہ کرے"اب ہم تم سے بکلی بیزار ہوکر اسی فیصلہ کے منتظر ہیں اور جو دین قویم اللہ نے ہم کو مرحمت فرمایا ہےاس پر نہایت خوش ہیں تم نے اپنے لیے بد بختی سے جو روش پسند کی وہ تمہیں مبارک رہے ہر ایک فریق کو اس کی راہ و روش کانتیجہ مل رہے گا۔"
(ج:3، ص:919، ط:دارالاشاعت کراچی)
مفتی محمد شفیع صاحب( رحمہ اللہ) تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:
"تم کو تمہارابدلہ ملےگا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا، اس میں ان کے شرک پر وعید بھی سنادی گئی... یہاں لکم دینکم کا یہ مطلب نہیں کہ کفار کو کفر کی اجازت یاکفر پر برقرار رکھنے کی ضمانت دے دی گئی بلکہ اس کا حاصل وہی ہے جو لنااعمالناولکم اعمالکم کا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ جیساکروگے ویسا بھگتو گے۔"
(ج:8، ص:832، ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144504100229
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن