بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آیات و احادیث میسیج ڈیلیٹ کرنا


سوال

 ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ  آپ کسی کو قرآن پاک کی آیات میسج پر یا واٹس ایپ پر نہ بھیجیے؛ کیوں کہ وہ لوگوں سے ڈیلیٹ ہو جاتی ہے اور اس سے گناہ ملتا ہے اور وہ شخص یہ بھی بتا رہا تھا کہ قیامت کی نشانی ہے کہ لوگ قرآنِ  پاک کو اپنے  ہاتھ  سے ختم کریں گے،  آیا ایسا کچھ ہے۔ ذرا وضاحت  کیجیے!

جواب

میسج میں قرآنِ  کریم، احادیثِ مبارکہ، اور اسلامی کلمات موصول ہوں تو ان کو پڑھنے کے بعد یا ان سے نصیحت حاصل کرنے کے بعد  اگر ان کومٹانے (ڈیلیٹ) کرنے کی ضرورت درپیش ہو  تو اس کو مٹانے  میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،  اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے  ضرورت کی صورت میں  کاغذ پر سے قرآنی آیات اور احادیث  کو مٹانے کی اجازت دی ہے، لہذا اس طرح کے پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے کی بطریقِ اولیٰ گنجائش ہے، باقی اس طرح کے پیغامات  اگر صحیح اور مستند ہوں تو  بہتر یہ ہے کہ انہیں پڑھنے سے پہلے ختم نہ کیا  جائے، اس لیے کہ اس میں صورۃً  اعراض پایا جاتا ہے، لہذا بلاعذر پڑھنے سے پہلے سے ختم (ڈیلیٹ) نہیں کرنا چاہیے۔

باقی قربِ  قیامت میں علم اور قرآنِ کریم کے سینوں سے اُٹھنے کا ذکر ہے، لیکن اس  سے  مراد لکھا ہوا مٹانا نہیں ہے۔

     الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"و قال ابن فارس: الذي نقوله: إن الخط توقيفي لقوله تعالى: {علم بالقلم علم الأنسان ما لم يعلم} {ن والقلم وما يسطرون} وإن هذه الحروف داخلة في الأسماء التي علم الله آدم. و قد ورد في أمر أبي جاد ومبتدأ الكتابة أخبار كثيرة ليس هذا محلها و قد بسطتها في تأليف مفرد. فصل: القاعدة العربية أن اللفظ يكتب بحروف هجائية مع مراعاة الابتداء و الوقوف عليه و قد مهّد النحاة له أصولًا و قواعد و قد خالفها في بعض الحروف خط المصحف الإمام، و قال أشهب: سئل مالك: هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ فقال: لا إلا على الكتبة الأولى رواه الداني في المقنع، ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة، وقال في موضع آخر: سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف، أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك؟ قال: لا، قال أبو عمرو: يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ  نحو الواو في "أولوا"،وقال الإمام أحمد: يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير  ذلك وقال البيهقي في شعب الإيمان: من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف، و لايخالفهم فيه و لايغير مما كتبوه شيئا فإنهم كانوا أكثر علما وأصدق قلبا ولسانا وأعظم أمانة منا فلا ينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكاً عليهم".

(4 / 168، النوع السادس والسبعون: فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ ، ط: مجلس العلمی، ہند)

      فتاوی شامی میں ہے:

"الكتب التي لاينتفع بها يمحى عنها اسم الله و ملائكته و رسله و يحرق الباقي."

(6 / 422، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

      فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و لو محا لوحًا كتب فيه القرآن و استعمله في أمر الدنيا يجوز."

(5 / 322، الباب الخامس في آداب المسجد و القبلة و المصحف و ما كتب فيه شيء من القرآن، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200728

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں