بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آیت چھوٹ جانے سے نماز کے فساد کا حکم


سوال

اگر کسی امام سے آیت کے درمیان کچھ حصہ یا کوئی لفظ بھول جائے اور اس کے پڑھنے کے بعد وہ نماز کو مکمل کرے اور سجدہ سہو بھی نہ کیا ہو تو پھر اسی حالت میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

سوال میں جو تفصیل لکھی گئی ہے اس سے واضح طور پر یہ سمجھ نہیں آ سکا  کہ آیت/ لفظ کے بھول جانے کے بعد اس کو دوبارہ درست پڑھ لیا یا نہیں، اگر دوبارہ پیچھے سے دہرا لیا اور درست پڑھ لیا تو نماز درست ہو گئی۔

اور اگر نہیں دہرایا لیکن اس آیت یا لفظ کے چھوٹنے سے  معنیٰ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو ایسی صورت میں بھی نماز فاسد نہیں ہوئی، اور اگر معنی میں تبدیلی آئی ہے، لیکن اگلی اور پچھلی آیات سانس توڑ کر الگ الگ تلاوت کی گئی ہوں تو ایسی صورت میں نماز صحیح ہے، اس نماز کو دوبارہ پڑھنا یا سجدہ سہو کرنا لازم نہیں ہے۔

اگرآیت کا کچھ حصہ پڑھنے کے بعد اگلی آیت یا آیت کا اگلا حصہ متصل ہی سانس توڑے بغیر پڑھ لیا اور معنیٰ بھی بدل گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی، اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہو گا، اس لیے آیات کی تعیین کے ساتھ مسئلہ پوچھا جائے؛ تا کہ واضح جواب دیا جا سکے۔

واضح رہے کہ جس صورت میں نماز فاسد ہوتی ہے اس صورت میں سجدہ سہو کرنے سے نماز درست نہیں ہو گی،بلکہ دوبارہ پڑھنا لازم ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ولوزاد کلمةً أو نقص کلمة أو نقص حرفًا أو قدّمه أو بدله بآخر ... لم تفسد مالم یتغیر المعنی".

(كتاب الصلوة ،با ب القراءة ،ج:1 ،ص:633 ،ط:سعيد )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها ذكر آية مكان آية) لو ذكر آية مكان آية إن وقف وقفا تاما ثم ابتدأ بآية أخرى أو ببعض آية لا تفسد ،أما إذا لم يقف ووصل - إن لم يغير المعنى لا تفسد. أما إذا غير المعنى تفسد عند عامة علمائنا وهو الصحيح. هكذا في الخلاصة."

(کتاب الصلوۃ،الباب الرابع فی صفۃ الصلوۃ،80/1،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں