زیدنےایک مدرسہ قائم کیا لوگوں کی توجہات یعنی: زکوة صدقات اور امداد سے مدرسہ چلتا رہا؛ پھر مدرسہ نے اپنی زمین خریدلی اس مد سے جو خریدنے کے لائق امداد یا عطیات یا تملیک، حیلہ وغيرہ، اس سے۔ پتہ چلا اب اس زمین کا مالک ایک دینے والا تو ہے نہیں کہ اسکی مرضی جانے یہ تو ہزاروں لوگوں کی رقم مل کر لی گئی ہے۔
اب بانی مدرسہ زید نے اس نظامی مدرسہ کو سرکاری مدرسہ بورڈ سے الحاق کروالیاہے زید کا یہ عمل شریعت کی روشنی میں کیسا ہے،اور اب عوامی چندہ (زکوٰۃ،صدقات،عطیات و حیلہ) کے ذریعہ لی ہوئی زمین کا کیا ہوگا ؟۔
صورت مسئولہ میں مخیرحضرات کے تعاون اور امداد سے مدرسہ نظامی کے لیے جو زمین خریدی گئی ہے، وہ مدرسہ کے لیے وقف ہے، اسے مدرسہ یا مدرسے کی ضروریات کے لیے استعمال کیا جائے۔ کسی کا اس کو ذاتی ملکیت سمجھنا اور ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔اسی طرح اسے سرکاری مدرسہ بورڈ سے ملحق کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".
(کتاب الوقف،ج: 4، صفحہ: 433، ط: ایچ، ایم،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100060
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن