جسں آدمی کے پاس کے ابھی آٹھ لاکھ روپے ہوں، اس پر بھی زکوۃ فرض ہے؟
اگر مذکورہ کل رقم آپ کی بنیادی ضرورت (مثلاً رواں مہینے کے راشن اور یوٹیلیٹی بلز) سے زائد ہے، اور آپ پر قرض بھی نہیں ہے، تو مذکورہ رقم (آٹھ لاکھ روپے ) پر بیس ہزار (20000) روپے بطور زکات ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا۔ واضح رہے کہ زکات کی واجب مقدار معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کل مالیت کو چالیس سے تقسیم کردیجیے، حاصل جواب، زکاۃ کی واجب مقدار ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و لیس في دور السکنی و ثیاب البدن و أثاث المنازل و دوابّ الرکوب و عبید الخدمة و سلاح الاستعمال زکاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلیة ولیست بنامیة".
(كتاب الزكوة، ج:2، ص:262، ط:ایچ ایم سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"و منها أن لایکون علیه دین مطالب به من جهة العباد عندنا فإن کان، فإنه یمنع وجوب الزکاة بقدره حالًا کان أو مؤجلًا".
( ج:2، ص:6، کتاب الزکاة، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200684
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن