بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آٹا فروخت کرتے وقت بوری میں سے معمولی آٹے کے گرجانے اور اس گرے ہوئے آٹے کو بیچنے کا حکم


سوال

میں آٹے کا تاجر ہوں، آٹا مختلف وزن کی پیکنگ میں کمپنی والے ہمیں دیتے ہیں، چوں کہ آٹا جالی والی بوری میں ہوتا ہے اس لیے اس کو لگانے اور اٹھانے اور بیچنے میں وزن میں کمی واقع ہوجاتی ہے جو کہ کمپنی والے بھی جانتے ہیں اور ہمارا کسٹمر بھی جانتا ہے، یہ آٹا زمین پر بھی گرتا ہے،گرنے کی وجہ سے یہ آٹا مہینے کے آخر میں جمع ہوجاتا ہے جو کہ انسان کے کھانے کے لائق بھی نہیں رہتا،بالآخر اس آٹے کو جانور پالنے والے لوگ خرید کر لے جاتے ہیں،مفتی صاحب میرے دو سوالات ہیں آپ سے:

سوال نمبر: ایک یہ وزن کم ہونے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے جو کہ قصداً کسی نے بھی کم نہیں کیا ؟

سوال نمبر دو: یہ ہے کہ یہ جو آٹا زمین پر گرا جس کو بعد میں فروخت کردیا گیا اس فروخت شدہ آٹے کی آنے والے رقم کا کیا شرعی حکم ہوگا؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں اگر آٹے کی بوریوں کو اٹھانے،لگانے اور بیچنے میں آٹا نکالانہیں جاتا،بلکہ خود ہی معمولی مقدار میں آٹا گرجاتاہے،اوراس کے گرنے کی وجہ سے وزن میں اتنی کمی آجاتی ہےجس کوعموماًخریدار برداشت کرلیتے ہیں،اور یہ بات ان کے علم میں بھی ہوتی ہےتواس صورت میں بیع بھی جائز ہے،اور وزن کم ہوجانے کا گناہ سائل کو نہ ہوگا۔

2:جو آٹاسائل کے گودام میں مال آنےکے بعداس کو لگانے اور اٹھانے میں گرا ہےوہ تو سائل کی ملکیت ہے،اور جو آٹاسودا ہوجانے کےبعداس کو خریدار کے حوالے کرتے ہوئے گراہے،وہ خریدار کی ملکیت ہے،اور دونوں طرح کے آٹے کوچوں کہ ایک ساتھ جمع کرکے بیچاجاتا ہے،اس لیےاس کو بیچ کرحاصل ہونے والی رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر کسٹمر کی طرف سے آٹے کی کم ہوجانےوالی معمولی مقدار کامطالبہ نہ کیاجاتا ہواور عرفاً یہ بات معلوم بھی ہوکہ یہ تھوڑا،تھوڑا گرا ہوا آٹازیادہ مقدار میں جمع ہونے کےبعد بیچ دیاجاتا ہے(یعنی کسٹمر کی طرف سے دلالۃًفروخت کرنے کی اجازت ہوتی ہے)،تو اس صورت میں اس آٹے کو بیچ کرحاصل شدہ رقم استعمال کرناجائز ہے،البتہ چوں کہ کسٹمر کی طرف سے گرے ہوئے آٹے کوبیچ کریا بغیر بیچے استعمال کرنے کی صراحتاًاجازت نہیں ہوتی ہے،اس لیے اگر یہ آٹابغیرپیسوں کے بہ نیت صدقہ ہی مویشیوں کو کھلادیاجائےتو زیادہ مناسب ہے۔

الإختيار لتعليل المختار  میں ہے:

"قال: (ويجوز للوصي أن يحتال بمال اليتيم إن كان أجود) بأن كان أملأ أو أيسر قضاء وأعجل وفاء؛ لأنه أنظر لليتيم والولاية نظرية ؛ ولهذا لا يجوز بيعه وشراؤه بما لا يتغابن إذ لا نظر له فيه، بخلاف ‌الغبن اليسير؛ لأنه لا يمكن الإحتراز عنه، ففي اعتباره سد باب التصرفات."

(ص:٦٨، ج:٥، کتاب الوصایا، ط:دار الكتب العلمية)

شرح المجلة  میں ہے:

"المعروف عرفا ‌كالمشروط شرطا وفي الكتب الفقهية عبارات أخرى بهذا المعنى " الثابت بالعرف كالثابت بدليل شرعي " و " المعروف عرفا ‌كالمشروط شرعا " و " الثابت بالعرف كالثابت بالنص " والمعروف بالعرف ‌كالمشروط باللفظ ... المعروف بين التجار ‌كالمشروط بينهم."

(ص:٥١، ج:١، المقدمة، المقالة الثانية، المادة:٤٤، ط:دار الجيل)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"الغبن محرم لما فيه من التغرير للمشتري والغش المنهي عنه، ويحرم تعاطي أسبابه. لقوله صلى الله عليه وسلم: من غشنا فليس منا، قال ابن العربي: إن الغبن في الدنيا ممنوع بإجماع في حكم الدنيا إذ هو من باب الخداع المحرم شرعا في كل ملة. لكن اليسير منه لا يمكن الإحتراز منه لأحد فمضى في البيوع، إذ لو حكمنا برده ما نفذ بيع أبدا؛ لأنه لا يخلو منه ... إذا كان الغبن المصاحب للعقد يسيرا فلا يؤثر في صحته عند جمهور الفقهاء. قال ابن هبيرة. اتفقوا على أن الغبن في البيع بما لا يوحش لا يؤثر في صحته."

(ص:١٣٩-١٤٠، ج:٣١، حرف الغین، الغبن، ط:دار الصفوۃ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144505100190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں