بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آسمانوں کے مابین احادیث میں فاصلہ کا بیان اور واقعۂ معراج کے ساتھ اس کی تطبیق


سوال

 آج کل اس کم علمی کے دور میں بہت سے لوگ مختلف اقسام کی احادیث کا خود سے معنیٰ پیش کرتے ہیں مثلاً پہلا آسمان، دوسرا آسمان اور تیسرا آسمان اور ان کے درمیان ۵۰۰ سالوں کی مسافت، دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپس میں تعلق، تو کیا ان احادیث کا مطالعہ کرنا ضروری ہے؟ تاکہ اسے جدید دور کے سائنسی طلباء کو سمجھایا جا سکے، یا ان پر یقین صرف معجزات کی حد تک رکھا جائے؟

جواب

احادیث مبارکہ میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی جو مسافت ذکر ہے، وہ مختلف روایات میں مختلف وارد ہے، اور ان سب سے مراد یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان میں کافی فاصلہ ہے،جس کو کوئی انسان طے نہیں کرسکتا، یہ تو احادیث کا محمل ہے، اور جہاں تک اس مسافت کو ایک گھڑی میں طے کرنے کی بات ہے تو وہ واقعتاً اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کاایک معجزہ ہے،الحاصل یہ کہ احادیث کی حقیت کا اعتقاد رکھنابھی ضروری ہے، اور اس مسافت کو طے کرنابطورِ معجزہ تھا ،  اس کا اعتقاد بھی ضروری ہے۔

لہذا سائنسی طلباء کے سامنے اگر ان روایات کو بیان کیاجائے،تو اس کے دونوں رخ لازماً اس طرح بیان کیے جائیں کہ جس سے احادیث پر یقین بھی حاصل ہو اور ان کے ذہنوں میں تعارض بین الاحادیث کا اشکال بھی نہ ہو۔ نیز علاماتِ قیامت وغیرہ سے متعلق  جن احادیث کا محمل متعین نہیں ہے،  ان کا محمل یقینی طور پر متعین نہ کیا جائے۔

متن العقيدة الطحاوية میں ہے:

"والمعراج حق وقد أسري بالنبي صلى الله عليه وسلم وعرج بشخصه في اليقظة إلى السماء ثم إلى حيث شاء الله من العلا وأكرمه الله بما شاء وأوحى إليه ما أوحى."

(ص:٤٥، ط: المکتب الإسلامي، بيروت)

شرح المشکاۃ للطّیبي  میں ہے:

"قال: (هل تدرون ما بعد ما بين السماء والأرض؟) قالوا. لا ندري قال: (إن بعد ما بينهما إما واحدة وإما اثنتان أو ثلاث وسبعون سنة، والسماء التي فوقها كذلك) حتى عد سبع سماوات ... والمراد بـ (السبعون) في الحديث ‌التكثير ‌لا ‌التحديد، لما ورد أن بين السماء والأرض مسيرة خمسمائة سنة، والتنكير هنا أبلغ والمقام له أدعى."

(ص:٣٦٢٤،ج:١١،کتاب أحوال القيامة وبدء الخلق، ط:مكتبة نزار)

فتح القدير  میں ہے:

"ومنكر المعراج إن ‌أنكر ‌الإسراء إلى بيت المقدس فكافر، وإن أنكر المعراج منه فمبتدع انتهى من الخلاصة."

(ص:٣٥٠،ج:١،کتاب الصلاۃ،باب الإمامة،ط:دار الفكر،لبنان)

فقط و اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507101475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں