بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آسمانوں میں جو خدا ہے یا اوپر والا دیکھ رہا جیسے کلمات کہنے کا حکم


سوال

اللہ جل شانہ  کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا درست ہے :  (اوپر والا دیکھ رہا ہے /آسمانوں میں جو خدا ہے )، اس كا كيا حكم هے؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالی کی ذات جہت اور مکان سے پاک ہے اور اللہ تعالی کی صفات میں جہاں یہ ذکر ہے کہ: ” اللہ آسمان میں ہے “ یا یہ ذکر ہے کہ" ” جہاں بھی منہ پھیرو گے،  وہاں اللہ کو پاؤ گے“  یا جہاں یہ ذکر ہے کہ:  ”تین لوگ  سرگوشی نہیں کرتے ،مگر چوتھے اللہ تعالی ہوتے ہیں اور چار لوگ سرگوشی نہیں کرتے ، مگر پانچویں  اللہ تعالی ہوتے ہیں“    تو ان تمام آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  کے لیے یہ صفت بلا کیفیت ثابت ہے ،انسان اس بات کا ادارک نہیں کرسکتا، اہلِ  سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ  "اللہ تعالی" کی ذات کسی  مکان کے ساتھ اس طرح خاص نہیں ہے،  جس طرح انسانی جسم ایک  مکان کے ساتھ خاص ہوتا ،اللہ کی جو صفات کسی مکان کے اختصاص کی طرف اشارہ کرتی ہیں (مثلاً: استوى  علي العرش)  یا اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ:  اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے،  ان کا مطلب یہ ہی کہ بلا کسی کیفیت کے اللہ تعالیٰ  کے لیے یہ صفت ثابت ہے۔

لہذا قرآنِ کریم اور احادیث میں  جو اللہ  کی نسبت آسمان کی طرف منقول ہے ، اس نسبت کے ظاہر  کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی مسلمان یہ کہتا ہے کہ:  ”آسمانوں میں جو خدا ہے“ یا ”اوپر والا  دیکھ  رہا ہے“  تو ایسا کہنا ناجائز نہیں ہے۔

ایک حدیثِ مبارک  میں ہے:

"حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ  : میں  رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،  اور عرض کیا کہ:  یا رسول اللہ ﷺ ! میری ایک  باندی ہے،  جو میرا  ریوڑ چراتی ہے،  میں جب اس کے پاس گیا اور ریوڑ میں اپنی ایک بکری کم پائی تو میں نے اس بکری کے بارے میں اس سے  پوچھا، تو  اس نے کہا کہ: اس کو  بھیڑیا لے گیا،  مجھ کو اس پر غصہ آ گیا اور چوں  کہ میں  ایک انسان ہوں  (اور انسان  بشری تقاضے سے مغلوب ہوکر غصہ میں آجاتا ہے)  پس  میں نے اس  باندی کے  منہ پر ایک تھپڑ مار دیا  اور اس وقت کفارہ  کے طور پر  مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے  تو کیا میں اس  باندی کو آزاد کر دوں ؟   آپ  ﷺ نے   اس  باندی سے پوچھا کہ "اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ "  اس نے جواب دیا کہ:" آسمان میں!   پھر آپ ﷺ  نے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ:   آپ  ﷺ  اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ:  اس لونڈی کو آزاد کر دو؛ کیوں کہ یہ مسلمان ہے۔"

قرآن کریم میں ہے:

"ءَأَمِنتُم مَّن ‌فِي ‌ٱلسَّمَآءِ أَن يَخۡسِفَ بِكُمُ ٱلۡأَرۡضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ" [الملك: 16] 

"وَلِلَّهِ ٱلۡمَشۡرِقُ وَٱلۡمَغۡرِبُۚ ‌فَأَيۡنَمَا ‌تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجۡهُ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ وَٰسِعٌ عَلِيم" [البقرة: 115]

"أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعۡلَمُ مَا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِي ٱلۡأَرۡضِۖ مَا يَكُونُ مِن ‌نَّجۡوَىٰ ثَلَٰثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمۡ وَلَا خَمۡسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمۡ وَلَآ أَدۡنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَآ أَكۡثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمۡ أَيۡنَ مَا كَانُواْۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُواْ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٌ" [المجادلة: 7]

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

" 3303 - «عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ جَارِيَةً كَانَتْ لِي تَرْعَى غَنَمًا لِي فَجِئْتُهَا وَقَدْ فَقَدَتْ شَاةً مِنَ الْغَنَمِ، فَسَأَلْتُهَا عَنْهَا فَقَالَتْ: أَكَلَهَا الذِّئْبُ ; فَأَسِفْتُ عَلَيْهَا وَكُنْتُ مَنْ بَنِي آدَمَ، فَلَطَمْتُ وَجْهَهَا، وَعَلَيَّ رَقَبَةٌ أَفَأُعْتِقُهَا؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (‌أَيْنَ ‌اللَّهُ؟) : فَقَالَتْ: فِي السَّمَاءِ فَقَالَ: (مَنْ أَنَا؟) : فَقَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (أَعْتِقْهَا) » رَوَاهُ مَالِكٌ"

(کتاب النکاح  باب فی کون رقبة فی کفارۃ مومنة، ج نمبر۵ص نمبر۲۱۶۵، دار الفکر)

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"و لو قال: الله تعالى في السماء فإن قصد به حكاية ما جاء فيه ظاهر الأخبار لايكفر."

(کتاب السیر باب المرتد،  ج نمبر۲ص نمبر ۲۵۹،دار الفکر)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال:کسی نے دوسرے سے کہا:  مسجد میں گلگلے کیوں رکھنے کئی تھی؟ کیا اللہ میاں وہاں بیٹھے تھے؟ اس نے کہا : ہاں!  کیا یہ کلمۂ  کفر ہے اور تجدیدِ  نکاح کی ضرورت ہے؟

الجواب : غالبًا مقصود  قائل کا تمکن و تحیز کا عقیدہ نہیں، نہ انکار ہے نصوص علی العرش  وغیرہ کا،  اس  لیے کفر نہیں،  دعوی تمکن کو فقہاء نے بناء علی انکار النص کفر کہہ دیا ہے،  و اذ لیس فلیس۔‘‘

(کتاب العقائد ج نمبر۵ص نمبر۳۹۹،مکتبہ دار العلوم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں