بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاشوراء کے روزے رکھنے کا حکم اور اس کی صورتیں


سوال

نو اور دس محرم کے دن روزہ رکھنا کیسا ہے؟ اس کی تین صورتیں ذکر کی گئی ہیں، پہلی اور تیسری صورت کا حوالہ نہیں ملا، دوسری صورت کا حوالہ ملا ہے۔

جواب

دس محرم الحرام یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے، احادیث میں اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں،مثلاًرمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا کہ عاشوراء کے دن یہود بھی روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے آنے والے سال کے محرم میں نویں تاریخ کے  روزے کا بھی ارادہ کیاتھا، مگر اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، اس لیے دس تاریخ کے ساتھ نو يا گياره تاریخ کو ملانا مستحب ہے، صرف دس تاریخ کا روزہ رکھنا اہلِ کتاب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے۔

حضرت مولانا انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے محرم کے مہینے میں عاشوراء کے روزے رکھنے کی تین صورتیں ذکرفرمائی ہیں، یہی تین صورتیں علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی ذکر فرمائی ہیں:

 (1) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے۔

  (2) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔

(3) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔

ان میں پہلی صورت سب سے افضل ہے، اور دوسری صورت کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری صورت کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے، اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے۔

مسلم شريف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أفضل ‌الصيام، ‌بعد ‌رمضان، شهر الله المحرم، وأفضل الصلاة، بعد الفريضة، صلاة الليل»".

(کتاب الصیام، باب صوم المحرم، ج:1، ص:431، ط:رحمانیه)

وفیہ ایضاً:

"عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول الله ‌إنه ‌يوم ‌تعظمه ‌اليهود ‌والنصارى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع» قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم".

(کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، ج:1، ص:420، ط:رحمانیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويستحب أن يصوم يوم ‌عاشوراء بصوم يوم قبله أو يوم بعده ليكون مخالفا لأهل الكتاب ونحوه في البدائع، بل مقتضى ما ورد من أن صومه كفارة للسنة الماضية".

(کتاب الصوم، ج:2، ص:375، ط:سعید)

سنن کبری للبیہقی میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود ‌صوموا ‌قبله ‌يوما ‌أو ‌بعده ‌يوما".

(کتاب الصیام، باب صوم یوم التاسع، ج:4، ص:475، ط:دار الکتب العلمیة)

العرف الشذی شرح سنن الترمذی میں ہے:

  "وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى".

(كتاب الصوم، باب ماجاء في الحث علي  صوم يوم عاشوراء، ج:2، ص:دار التراث العربي)

نیل الاوطار میں ہے:

"والظاهر أن الأحوط صوم ثلاثة أيام التاسع والعاشر والحادي عشر، فيكون صوم عاشوراء على ثلاث مراتب: الأولى صوم العاشر وحده. والثانية صوم التاسع معه. والثالثة صوم الحادي عشر معهما، وقد ذكر معنى هذا الكلام صاحب الفتح".

(كتاب الصيام،باب صوم المحرم وتاكيد عاشوراء، ج:4، ص:290، ط:دار الحديث)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100980

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں