بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈنگ میں عارضی مصلی بنانے کے بعد اہلِ بدعت کے وہاں پر اپنے عقائد کے پرچار سے مصلی بنانے والوں کو گناہ ہوگا؟


سوال

چند دنوں پہلے حکومت کی طرف سے موجودہ  صورتِ  حال کو دیکھ کر کرونا وائرس کی وجہ سے  مساجد پر پابندی لگادی گئی ، جس کی وجہ سے علماءِ  کرام کی جانب سے گھرپر نماز پڑھنے کی تجویز سامنے آئی تھی، لیکن کیوں کہ آپس میں چند علماء میں اختلاف تھا اور بہت سی  مسجدوں میں اس کے بعد نماز باجماعت ہوتی تھی اور اب تک ہورہی ہے، جن میں ہمارے دیوبندی مسلک کی مساجد بھی شامل ہیں، تو ان سب چیزوں کو دیکھ کر ہم نے اور بلڈنگ انتظامیہ نے ایک دوسرے سے بات کرکے یہ ترتیب بنائی کہ کیوں نہ ہم اپنی بلڈنگ کی چھت پر باجماعت نماز کی کوئی ترتیب بنالیں، اور دوسری طرف بہت سی جگہوں پر یہ ترتیب پہلے سے بھی شروع تھی، پھر مفتیانِ  کرام سے پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ اچھی بات ہے، اس ترتیب کے شروع ہونے کے بعد امامت دیوبندی مسلک کا بندہ کروارہا تھا جو کہ حافظ بھی تھا اور  وہ بھی آپس کے مشورے سے  تھا، کیوں کہ وہ حافظ بھی تھا اور باشرع بھی تھا، بالغ بھی تھا، نیز مزید دیوبندی حافظ ہوتے ہوئے صرف اسی کو خاص کر امامت اس لیے دی تھی  کیوں کہ بلڈنگ انتظامیہ میں بھی وہ ایک اہم کردار ادا کررہا تھا جس کی بنا پر  اس کی ہر مسلک اور فرقے کے بندے سے بہت اچھی بات تھی، اس لیے ہم نے سوچا کہ اس کے پیچھے ہر مسلک کا بندہ آسانی سے نماز پڑھ لے گا ، اور حقیقتًا یہی ہوا کہ ہم نے ایک نماز میں دیکھا کہ دیوبندی، بریلوی اور اہلِ  حدیث سب نے نماز پڑھی، لیکن ابھی ایک دو دن ہی گزرے تھے کہ ہماری بلڈنگ میں سے ایک  بریلوی صاحب اپنا امام لے کر آئے اور یہ بات سامنے رکھی کہ یہ آئندہ ہونے والی نمازوں کی امامت کریں گی، تو  تب سے اب تک وہی امامت کررہے ہیں، لیکن ان کی امامت کے بعد ان کے پیچھے آہستہ آہستہ بلکہ ایک دو نماز کے بعد دیوبندی حضرات بھی نہیں آنے لگے اور  اہلِ  حدیث نے بھی کم کردیا اور  صرف بریلوی حضرات کی تعداد بڑھتی چلی جارہی  ہے، اب چوں کہ وہ کچھ نمازوں کے بعد مجمع کے سامنے بات بھی کرتے ہیں ، مجمع بھی سارا ان ہی کا ہوتا ہے اور اب انہوں نے چوں کہ یہ جگہ بھی نماز کی حالت میں دیکھ لی تو  اب یہ  بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ رمضان میں یہاں پر تراویح کی کوئی ترتیب بن جائے، جب  کہ ان سے پہلے وہی دیوبندی حافظ نے  طے کیا تھا کہ وہ یہاں تراویح پڑھائیں گے  ان شاء اللہ، لیکن اب چوں کہ ہماری بلڈنگ میں اکثریت  بریلوی  حضرات  کی  ہے تو  یہ  دوسروں کو  دبا کر  اپنی  مرضی چلا رہے  ہیں۔

اب پوچھنا یہ تھا کہ ہم نے تو اوپر والی اور دوسری باتوں کو دیکھ کر نیک نیت  سے نماز  کی ترتیب بنائی تھی، لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ سب صورت پیدا ہوجائے اور یہ لوگ غالب آجائیں گے، اب یہ جتنے لوگوں کا عقیدہ خراب کریں گے تو اب تمام صورتِ حال میں ہم دیوبندی حضرات کیا کریں؟ اور ہم جنہوں نے  یہ  ساری ترتیب بنائی جس پر ان لوگوں نے قبضہ کرلیا تو  کیا اب جن لوگوں کا عقیدہ خراب ہوگا اس کے گناہ میں ہم شریک ہوں گے؟  حال آں کہ ہمارا یہ سب اقدام نیک نیتی پر مبنی تھا!

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  اس وقت کرونا  وبا  اور  سرکاری  پابندی   کے  تناظر  میں آپ کا  اقدام  درست  تھا، اور  اچھا جذبہ تھا، آپ لوگوں نے اپنے طور پر جو کوشش کی اس کا اجر وثواب ملے گا، اور بعد میں جو صورتِ  حال پیدا ہوئی جس میں آپ کوئی کردار نہیں ہے ، اس سے اگر خدانخواستہ کسی کا عقیدہ خراب ہوگا تو  اس کا گناہ آپ کو نہیں ہوگا۔ البتہ اپنی  بساط   کی  حد تک انتشار سے بچتے ہوئے ، حکمت  و بصیرت کے ساتھ  لوگوں کے عقیدہ کی  اصلاح و درستی  کے لیے کوشاں رہیں اور  انہیں بدعت وخرافات سے آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس سے انتشار اور فساد ہوتو  اس  سے  بچنے   کی کوشش کریں۔

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 135):

"إذا اجتمع المباشر و المتسبب أضيف الحكم إلى المباشر.
فلا ضمان على حافر البئر تعديا بما أتلف بإلقاء غيره. و لايضمن من دلّ سارقًا على مال إنسان فسرقه ... الخ".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں