بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عارضی دانت ہونے کی صورت میں غسل کا حکم


سوال

جولوگ عارضی دانت لگوا لیا کرتے ہیں، آیا غسل کے وقت ان کا اتار نا ضروری ہے؟ یا بدوں اتارنے کے ان کا غسل درست ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں عارضی دانت اگر اس طرح لگوائے ہوں کہ جب چاہیں انہیں نکالا جاسکتا ہو تو پھر فرض غسل کرتے وقت ان دانتوں کو ہٹا کر کلی کرنا لازم ہوگا، ورنہ غسل نہیں ہوگا،  لیکن اگر دانت اس طور پر لگوائے گئے ہوں کہ بلا مشقت ان کو ہٹانا ممکن نہ ہو تو پھر وہ جسم کا حصہ شمار ہوں گے اور فرض غسل  کرتے وقت انہیں نکالنے کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ ان دانتوں کی موجودگی میں کلی کرنا کافی ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى. وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح."

(كتاب الطهارة، فرض الغسل، ص: 154، ج: 1، ط: سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

’’سوال: اگر سونے کا دانت لگوالیا ہو تو کیونکر اس کے اندرونی حصہ یعنی جڑ اور برابروں میں غسل جنابت کے وقت پانی پہنچایا جاسکتا ہے اور نہ پہنچے تو غسل ہوجاتا ہے یا نہیں؟

جواب: اندرونی حصہ میں پانی پہنچانا اس لیے ضروری نہیں کہ اب وہ دانت بوجہ لازم اور ثابت ہونے کے اصلی دانت کے حکم میں ہوجاتا ہے۔‘‘

(کتاب الطہارت، وضو، غسل اور تیمم، ج: 2، ص: 312، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں