بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عارضی مسجد (مصلی) كا حكم


سوال

میں کلفٹن بلاک ون کے ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس میں رہتا ہوں،گراؤنڈ فلور پر کار پارکنگ ہے ،جب کہ فرسٹ فلور سے اوپر کئی منزلہ رہائشی اپارٹمنٹس ہیں، ہم میں سے چند دوستوں نے تقریباً دس سال پہلے اپارٹمنٹ کی انتظامیہ سے مشورے کے بعد ایک کونے کی پارکنگ کی جگہ کو چار دیواری کرکے اسے باقاعدہ مسجد کی شکل دے دی تھی، اور اس فیصلے پر اس وقت یا بعد میں کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، کیوں کہ وہ جگہ کونے میں ہونے کی وجہ سے آسانی سے استعمال نہیں کی جا سکتی تھی، ایک پیش امام صاحب اور چند حضرات پر مشتمل مسجد کمیٹی مل کر اس مسجد کا انتظام سنبھالتے ہیں، پانچ نمازیں اور باقاعدگی سے جمعہ کی نماز بھی ادا ہوتی ہے، جب امام صاحب نہ آسکیں تو (جمعہ کے علاوہ) نماز کی اقامت ہم میں سے کوئی بھی  نمازی   کروا دیتا ہے،ہم میں سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اوپر کی منازل پررہائشی مکانات ہوں تو نیچے مسجد یا جامع مسجد نہیں بنائی جا سکتی،  البتہ اسے جاۓنماز کی حیثیت دی جا سکتی ہے، براۓ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہماری مسجد ایک جامع مسجد ہے ؟اور اس کی فضیلت، آداب اور شرائط بھی ویسی ہی  ہیں جو ایک جامع مسجد کے ہوتے ہیں، یا  یہ (عارضی طور پر) محض جاۓ نماز کا درجہ ہی رکھتی ہے ؟کیوں کہ اس کی چھت کے اوپر والی منازل پر لوگ رہائش پذیر ہیں ،اس کے علاوہ، نمازیوں کی تعداد کم ہی رہتی ہے۔

جواب

مسجد  اس  جگہ کو   کہا جاتا ہے  جوخالص اللہ  تعالی  کی  رضا  کی  خاطر مسجد کے لئے وقف کردی گئی ہو اور ہمیشہ کے لیے مخلوق کی ملکیت سے نکل کرخالق کی ملکیت میں داخل ہو، اس  میں بندوں کا کوئی حق شامل نہ ہو ، اور  جس کے نیچے سے لے کر اوپر تک کا حصہ مسجد ہی کے لیے ہو، کسی دوسرے کام کے لیے نہ ہو،نیز  کسی  جگہ پر مسجد کے احکام اس وقت جاری ہوں گے جب مالکِ زمین وقف کرکے اس پر نماز پڑھنے کی اجازت  دے دے اوراس کا راستہ الگ کردے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بلڈنگ کے نیچے کارپارکنگ کے ایک کونے کو چار دیواری کر کے نماز کے لئے مخصوص کرنے سے یہ جگہ شرعی مسجد نہیں بنی  ، اس پر مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے،یعنی اس میں نماز پڑھنے کا  اجراور ثواب مسجدِ شرعی کے برابرنہیں ہوگا، اس میں اعتکاف بھی شرعاً جائز نہیں ہوگا،  یہ جگہ محض مصلیٰ ( جائے نماز ) ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

مصلی پر جمعہ کی نماز ادا کرنا

نمازِ جمعہ درست ہونے کے لیے جامع مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے

البحرالرائق شرح كنز الدقائق ميں  ہے:

"(قوله: و من جعل مسجدًا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب. و حاصله أن شرط كونه مسجدًا أن يكون سفله وعلوه مسجدًا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى: {وأن المساجد لله}."

(کتاب الوقف،‌‌كان إلى المسجد مدخل من دار موقوفة،ج:5،ص:271،ط:دارالکتاب الاسلامی)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"المسجد في اللغة: بيت الصلاة، وموضع السجود من بدن الإنسان والجمع مساجد .وفي الاصطلاح: عرف بتعريفات كثيرة منها: أنها البيوت المبنية للصلاة فيها لله فهي خالصة له سبحانه ولعبادته...وخصصه العرف بالمكان المهيأ للصلوات الخمس، ليخرج المصلى المجتمع فيه للأعياد ونحوها، فلا يعطى حكمه، وكذلك الربط والمدارس فإنها هيئت لغير ذلك ."

(حرف المیم،ج:37،ص:194،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:کیافرماتے ہے علماءِدین دریں مسئلہ کہ ایک شخص کی ملکیت میں چند دکانیں ہیں ان کے اوپر مسجد تعمیرکی گئی اور دکانیں وقف نہیں ہیں ، اب مسئلہ حلِ طلب یہ ہے کہ آیا اس مسجد میں نماز کا ثواب گھر میں نماز پڑھنے کے برابرہے یا مسجد کا ثواب ہوگا؟

جواب:اس میں نماز پڑھنے سے مسجد کا ثواب نہیں ملے گا، البتہ نمازِ باجماعت پڑھنے کی بناء پر 27 گنااجرملے گااورگھرمیں اکیلے پڑھنے پر ایک ثواب ملے گا، یہ جگہ مصلی ہےاور گھرسے بہر حال افضل ہے۔"

(کتاب المساجد،ج:1،ص:736،ط:جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں