بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آرمی جوتوں پر مسح کرنے اور ان میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

1-کیا آرمی جوتوں پر مسح ہو سکتا ہے؟

2-آرمی جوتوں کو پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے؟

جواب

آرمی جوتوں پر مسح تب جائز  ہے جب ان میں مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں:

(۱) ٹخنوں سمیت پورے پاؤں کو ڈھانپنے والے ہوں۔

(۲) ان کو پہن کر کم از کم تین میل تک مسلسل درمیانی چال چلا جا سکے۔

(۳) ان میں سے پانی چھن کر پاؤں تک نہ پہچتا ہو۔

(۴) اپنی موٹائی و مضبوطی کے بل بوتے پر خود بخود بغیر کسی چیز کے باندھنے کے پنڈلی پر کھڑے ہو سکتے ہوں۔

مذکورہ بالا شرائط اگر آرمی جوتوں میں پائی جاتی ہیں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے، اور اگر ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جاتی ہو تو جائز نہیں ہے۔

2-جوتوں میں نماز پڑھنا دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، (۱) جوتے پاک ہوں۔ (۲) سجدے میں پیروں کی انگلیوں کے پورے یا جوتوں کا وہ حصہ جس کے ساتھ انگلیاں لگی ہوتی ہیں زمین پر لگتا ہو۔

آرمی جوتوں میں عموماً پیروں کی انگلیوں اور جوتے کے اگلے حصے (جو سجدے میں زمین سے لگتا ہے) کے مابین خلا ہوتا ہے، انگلیاں اس حصے کے ساتھ لگی ہوئی نہیں ہوتیں، اس لیے سجدہ درست نہ ہونے کی بنا پر آرمی جوتوں میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(شرط مسحه) ثلاثة أمور: الأول (كونه ساتر) محل فرض الغسل (القدم مع الكعب) أو يكون نقصانه أقل من الخرق المانع، فيجوز على الزربول لو مشدودا إلا أن يظهر قدر ثلاثة أصابع...(و) الثاني (كونه مشغولا بالرجل) ليمنع سراية الحدث...(و) الثالث (كونه مما يمكن متابعة المشي) المعتاد (فيه) فرسخا فأكثر.

(قوله ثلاثة أمور إلخ) زاد الشرنبلالي: لبسهما على طهارة، وخلو كل منهما عن الخرق المانع، واستمساكهما على الرجلين من غير شد، ومنعهما وصول الماء إلى الرجل، وأن يبقى من القدم قدر ثلاثة أصابع. 

قوله لو مشدودا) ؛ لأن شده بمنزله الخياطة وهو مستمسك بنفسه بعد الشد كالخف المخيط بعضه ببعض فافهم: وفي البحر عن المعراج: ويجوز على الجاروق المشقوق على ظهر القدم وله أزرار يشدها عليه تسده؛ لأنه كغير المشقوق، وإن ظهر من ظهر القدم شيء فهو كخروق الخف. اهـ.

قلت: والظاهر أنه الخف الذي يلبسه الأتراك في زماننا.

(قوله فرسخا فأكثر) تقدم أن الفرسخ ثلاثة أميال اثنا عشر ألف خطوة."

(كتاب الطهارة، باب المسح علي الخفين، شروط المسح، ج:1، ص:261، ط:سعيد)

فیہ ایضاً:

"(قوله وصلاته فيهما) أي في النعل والخف الطاهرين أفضل مخالفة لليهود تتارخانية.

وفي الحديث  «صلوا في نعالكم، ولا تشبهوا باليهود» رواه الطبراني كما في الجامع الصغير رامزا لصحته،  وأخذ منه جمع من الحنابلة أنه سنة ولو كان يمشي بها في الشوارع، لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - وصحبه كانوا يمشون بها في طرق المدينة ثم يصلون بها.

قلت: لكن إذا خشي تلويث فرش المسجد بها ينبغي عدمه وإن كانت طاهرة. وأما المسجد النبوي فقد كان مفروشا بالحصى في زمنه - صلى الله عليه وسلم - بخلافه في زماننا، ولعل ذلك محمل ما في عمدة المفتي من أن دخول المسجد متنعلا من سوء الأدب."

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة و مايكره فيها، فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر، ج:1، ص:657، ط: سعيد)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال الخطابي: ونقل عن الإمام الشافعي، الأدب خلع نعليه في الصلاة، وينبغي الجمع بحمل ما في الخبر على ما إذا تيقن طهارتها، ويتمكن معهما من تمام السجود بأن يسجد على جميع أصابع رجليه، وما في الإمام على خلاف ذلك اهـ.

وهو خطأ ظاهر لأنه يلزم منه أنه إذا لم يتيقن المهارة، ولم يمكن معه إتمام السجود أن يكون خلع النعل أدبامع أنه حينئذ واجب."

(كتاب الصلاة، باب الستر، ج:2، ص:636، رقم:765، ط:دار الفكر)

فیض الباری میں ہے:

"وقد علمت أن النعال غير المداس المعروف الآن في بلادنا، والصلاة في المداس ربما لا تصح؛ لأن القدم تبقى فيها معلقة، ولا تقع على الأرض، فلا تتم السجدة."

(كتاب الصلاة، باب الصلاة في النعال، ج:2، ص:34، رقم:384، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں