میرے جڑواں بیٹے ہوئے ہیں۔ اور میں نے اُن کے نام ’’آرب‘‘، اور ’’صارم‘‘ رکھے ہیں، کیا یہ نام درست ہیں؟ اور ان ناموں میں کوئی قباحت تو نہیں ہے؟
’’آرِب‘‘ یہ "ارب" سے ماخوذ ہے، اس کے ماخذ کے اعتبار سے اس کے مختلف معانی ہوسکتے ہیں: جسم کاٹنے کا آلہ، حاجت پوری کرنے کا آلہ، ہوشیار اور ماہر، البتہ عربی زبان میں اس مادے سے ’’آرب‘‘ کے بجائے "اَرِیب" لفظ مستعمل ہے، اس لیے آرب کے بجائے ’’اریب‘‘ نام رکھ لیا جائے، اس صورت میں معنیٰ متعینہ طور پر ہوشیار اور ماہر ہوگا۔
اور "صارم " کے معنی ہیں تیز کاٹنے والی تلوار، بہادر آدمی، ارادہ کا پکا، مستقل مزاج (القاموس الوحید)۔ یہ نام رکھنا درست ہے، البتہ اس کے مادے "ص، ر، م" سے ایک نام "اَصرَم" کو رسول اللہ ﷺ نے تبدیل فرمادیا تھا، اس لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ یہ نام نہ رکھا جائے۔
المعجم الوسيط (1 / 12):
"(أرب) الْعُضْو أربا قطع أَو سقط من الجذام وَنَحْوه وَيُقَال مِنْهُ أرب فلَان وبالشيء كلف بِهِ وَلَزِمَه وَفِي الشَّيْء وَبِه درب وَصَارَ ماهرا بَصيرًا وَعَلِيهِ بِكَذَا قوي واستعانو وَإِلَيْهِ احْتَاجَ وافتقر فَهُوَ أرب وأريب
(أرب) أرابة وإربا كَانَ ذَا دهاء وفطنة فَهُوَ أريب
(آرب) عَلَيْهِ إيرابا فَازَ وَفُلَانًا مؤاربة باراه وغالبه فِي الدهاء وَنَحْوه يُقَال هُوَ يؤارب أَخَاهُ وَيُقَال مؤاربة الأريب جهل وعناء
(أرب) شح وحرص وَالشَّيْء أربه ووفره وكمله والذبيحة قطعهَا إربًا إربًا والعضو قطعه كَامِلاً وَفُلَانًا جعله أريبًا".
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144112200598
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن