ہمارے پاس ایک پیتل کی دیگ تھی جو ہم سے مہمانوں کے دعوت پکانے کے لیے کچھ لوگ لے گئے اور انہوں نے دعوت کے بعد اس دیگ کو بیچ دیا اور خود لاعلمی کا اظہار کرتے رہے کچھ دنوں کے بعد ہمیں اس دیگ کے بارے میں خبر ملی کہ فلاں دکان والے کے ہاں ہے جب وہاں گئے تو اس دکاندار نے کہا کے میرے پاس تو بہت سی دیگیں آتی رہتی ہیں آپ کی دیگ کی کوئی علامت ہے تو بتائیں جب علامت بتائی تو کہنے لگا کہ یہ دیگ تو ہم نے آگے فیکٹری میں پہنچادی ہے اب تک گل چکی ہوگی اب ہم کس سے دیگ کا مطالبہ کریں دکاندار سے یا جو ہم سے لے گئے تھے ان سے؟
جو لوگ آپ سے دیگ استعمال کے لیے لے کر گئے تھے،اُن کا آپ سے دیگ عاریت پر لے کر آگے فروخت کرنا شرعا جائز نہیں تھا،اس پر وہ لوگ گناہ گار ہیں،اب جب کہ دیگ کا کوئی وجود ہی نہیں رہا تو ان لوگوں پر (جو لوگ آپ سے دعوت کے لیے دیگ لے کر گئے تھے ) آپ کی دیگ کی قیمت ادا کرنا شرعا لازم ہے۔
النہایۃ فی شرح الہدایۃ میں ہے:
"(أو باعه وسلمه) وإنما ذكر التسليم لأن التعدي لا يتحقق بمجرد البيع، بل بالتسليم بعده (كما لو باع المودع الوديعة- وسلمها فإنه يكون ضامنا-."
(کتاب الغصب،ج21،ص170،ط؛مرکز الدراسات الاسلامیہ)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"وإن باع الغاصب الولد وسلمه أو أتلفه فهو ضامن لقيمته لوجود التعدي منه على الأمانة كما لو باع المودع الوديعة."
(کتاب الغصب،ج11،ص55،ط؛دار المعرفۃ)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"فلو حصل من المستعير تعد أو تقصير بحق العارية ثم هلكت أو نقصت قيمتها فبأي سبب كان الهلاك أو النقص أي سواء كان بتعد وتقصير أم بسبب آخر أم ماتت الدابة حتف أنفها يلزم المستعير الضمان؛ لأن المستعير لما أصبح في حكم الغاصب فقد تحولت يد أمانته إلى يد ضمان. أي أنه يلزم ضمان مثل العارية إذا كانت من المثليات وقيمتها تامة إذا كانت من القيميات وقيمة النقصان فقط في حال النقصان."
(الباب الثالث فی العاریۃ،ج2،ص350،ط؛دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101016
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن