کیا حضور پاک ﷺ کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے؟
حضور اقدس ﷺ کے نام سے مستقل قربانی کا جانور ذبح کرنا یا ایک مکمل حصہ قربانی کا آپ کی طرف سے کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مستحب اور اجرو ثواب کا باعث ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے نام سے کی گئی قربانی کا حکم ”نفلی قربانی“ والا ہے، اس کا گوشت خود کھانا، مال داروں یا غریبوں کو دینا سب جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی فرماتے تھے، نیز آپ ﷺ کے امت پر بے انتہا احسانات ہیں، لہٰذا بصورتِ گنجائش امتی کو بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔
اور اگر متعدد افراد مل کر ایک حصہ آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو قربانی صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سب لوگ اپنے حصے کی رقم کسی ایک کو ہبہ (گفٹ) کردیں، پھر ایک کی طرف سے نفلی قربانی حضورﷺ کے ایصال ِ ثواب کے لیے کی جائے۔اس سے قربانی کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ان شاء اللہ باقی شرکاء (جنہوں نے اپنے حصے کی رقم ہبہ کردی ہے وہ) بھی پورے ثواب کے حق دار ہوں گے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326):
" قال في البدائع: لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت، بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه، والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح" اهـ
وفيه أيضًا (2/ 595) :
"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى: ﴿ وَاَن لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52] ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.
(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة و السلام، و الشهداء و الأولياء و الصالحين، و تكفين الموتى، و جميع أنواع البر، كما في الهندية. ط. و قدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين و المؤمنات؛ لأنها تصل إليهم و لاينقص من أجره شيء. اهـ ."
بدائع الصنائع (5/70) :
'' وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.
فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟
(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، و لايجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء''.
(5/70، کتاب الاضحیة،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200760
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن