بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے قربانی کرنا


سوال

مستقل حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے نام پر قربانی کرنا، کیا یہ جائزہے؟

جواب

حضور اقدس ﷺ نے نام سے مستقل قربانی کا جانور ذبح کرنا نہ صرف جائز،  بلکہ مستحب اور اجرو ثواب کا باعث ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے نام سے کی گئی  قربانی کا حکم ”نفلی قربانی“ والا ہے،  اس کا گوشت خود کھانا، مال داروں یا غریبوں کو  دینا سب جائز  ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی فرماتے تھے، نیز آپ ﷺ کے امت پر بے انتہا احسانات ہیں، لہٰذا بصورتِ گنجائش امتی کو بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326):

" قال في البدائع: لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت، بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه، والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح" اهـ

وفيه أيضًا (2/ 595) :

"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى: ﴿ وَاَن لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52] ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.

(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة و السلام، و الشهداء و الأولياء و الصالحين، و تكفين الموتى، و جميع أنواع البر، كما في الهندية. ط. و قدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين و المؤمنات؛ لأنها تصل إليهم و لاينقص من أجره شيء. اهـ ."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں