آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو " یا محمد" یا "یا احمد" کہہ کر پکارنا شرعًا کیسا ہے؟
"یا محمد" یا"یا احمد" کہنا نہ مطلقًا ممنوع ہے اور نہ ہی مطلقًا جائز ہے، بلکہ اس میں یہ تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنے کی نیت سے یا حضور ﷺ کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے "یا محمد" یا "یا احمد " کہنا ممنوع اور گناہ ہے۔ اس اعتقاد کے بغیر شوق اور لذت حاصل کرنے کے لیے "یا محمد" یا " یا احمد " کہنے کی اجازت ہے۔
امداد الفتاوی میں ہے:
"بارادۂ استعانت و استغاثہ یا باعتقاد حاضر وناظر ہونے کے منہی عنہ اوربدون اس اعتقاد کے محض شوقاً و استلذاذاً ماذون فیہ ہے، چوں کہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق و استلذاذ ہو تاہے؛ اس لیے نقل میں توسع کیا گیا، لیکن اگر کسی جگہ اس کے خلاف دیکھا جائے گا منع کر دیا جائے گا۔"
(١١ / ٥٧٥، بعنوان یا رسول اللہ کہنا، ط: زکریا بک ڈپو ہند)
"اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ نے "یا رسول اللہ" کہنے کی پانچ صورتیں ذکر کی ہیں:
۱) شعراء کی طرح تخیل میں حضور ﷺ کو خطاب کرکے "یا رسول اللہ کہنا۔
۲) اظہارِ محبت کے لیے یا رسول اللہ کہنا۔
۳) اس عقیدہ کے ساتھ کہنا کہ فرشتہ درود پہنچاتے ہیں۔
۴) روضہ اطہر پر یا رسول اللہ کہنا۔
۵) اس عقیدہ کے ساتھ کہنا کہ حضور ﷺ براہِ راست خود اس درود کو سن رہے ہیں۔
پہلی چار صورتوں میں "یا محمد "کہنا جائز ہے اور پانچویں صورت میں ناجائز ہے۔"
(اختلاف امت اور صراط مستقیم، ص: ۴۸،مکتبہ لدھیانوی)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
"(سوال۳۷ ) یارسول اللہ کہنا جائز ہے یا نہیں؟
(الجواب) یارسول اللہ کہنے میں بڑی تفصیل ہے، بعض طریقے سے جائز اور بعض طریقے سے ناجائز ہے ۔
بے شک رحمۃ للعالمین ﷺ حیات ہیں، قبر شریف کے پاس درود وسلام پڑھا جاتا ہے تو آپ خود سنتے ہیں۔ اور کسی دور دراز مقام سے صلوٰۃ و سلام بھیجا جائے تو فرشتے آپ کی خدمت اقدس میں بالاسماء (بھیجنے والے کے نام کے ساتھ) پیش کرتے ہیں اور آپ ﷺ اس کا جواب دیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے۔
"من صلى عليّ عند قبري سمعته ومن صلی نا ئیاً أبلغته."
یعنی جو کوئی میری قبر کے پاس سے درود بھیجتا ہے وہ میں خود سنتا ہوں اور جو کوئی دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔
(مشکوٰۃ شریف مشکوٰۃ ۔باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا۔ ص: ۸۶)
دوسری حدیث میں ہے :
"إنّ للهِ ملئکة سیّاحین في الأرض یبلغوني من أمّتي السلام."
( مشکوٰۃ، باب الصلٰوۃ علی النبیﷺوفضلھا، ص ۸۷)
خدا تعالیٰ نے فرشتوں کی ایک جماعت مقرر کر دی ہے جو زمین میں گشت کرتے رہتے ہیں اور میری امت کا صلوٰۃ وسلام مجھے پہنچاتے ہیں ۔
مطلب یہ کہ نزدیک ہو یا دور صحیح عقیدہ کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھتے وقت یا رسول اللہ کہا جائے تو وہ جائز ہے۔ مگر یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ دور سے پڑھے ہوئے درود و سلام آپ ﷺ کو بذریعۂ فرشتہ پہنچائے جاتے ہیں خدا کی طرح بہ نفس نفیس سن لینے کا عقیدہ نہ رکھے ۔
اسی طرح ’’ التحیات‘‘ میں’’ السلام علیك أیّھا النبي‘‘ کہہ کر سلام پہنچایا جاتا ہے ، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ نیز قرآنِ پاک پڑھتے وقت ’’ یا ایھا المزمل‘‘ عبادت کے طور پر پڑھ جاتا ہے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، اس کو حاضر و ناظر کی دلیل بنا لینا جہالت ہے۔
نیز حاضر و ناظر کے عقیدے کے بغیر فقط جوشِ محبت میں یار سول اللہ کہاجائے یہ بھی جائز ہے۔
کبھی غایۃ محبت اور شدید غم کی حالت میں حاضر ناظر کے تصور کے بغیر غائب کے لیے لفظِ ندا بولتے ہیں یہ بھی جائز ہے۔
کبھی صرف تخیل کے طریقہ کے ساتھ شاعرانہ و عاشقانہ خطاب کیا جاتا ہے اس میں بھی کوئی حرج نہیں (شعراء تو دیواروں اور کھنڈرات کو مخاطب بناتے ہیں)، یہ ایک محاورہ ہے ۔ حاضر و ناظر وغیرہ کا کوئی عقیدہ یہاں نہیں ہوتا۔
البتہ بدوں صلوٰۃ و سلام حاضر ناظر جان کر حاجت روائی کے لیے اٹھتے بیٹھتے یا رسول اللہ یا علی یاغوث وغیرہ کہنا بے شک ناجائز اور ممنوع ہے ۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ۔ {ادعوني استجب لکم} (سورۂ مومن) تم مجھے پکار و ، میری عبادت کرو ، میں تم سے غائب نہیں ہوں ۔ میں تمہارا کہنا اور پکارنا سنتا ہوں اور تمہاری درخواست و عبادت قبول کرتا ہوں ۔
(تفسیر حقانی ج ۶ ص ۱۹۱)
نیز حدیث شریف میں ہے :
"قال رجل: یا رسول الله أي الذنب أکبر عند الله؟ قال: أن تدعوا الله نداً و هو خلقك."
یعنی ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کون سا گناہ عند اللہ سب سے بڑا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا ۔ اللہ کو پکارنے میں اور اس کی عبادت میں تو کسی کو شریک بنا دے ۔
یعنی خدا کی طرح اور کو پکارے ، حال آں کہ تجھ کو پیدا اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح حاجت روائی کے لیے یا اللہ کہہ کر پکارتے ہیں اسی طرح دوسرے کو پکارے یہ بڑا گناہ ہے ۔
(مشکوٰۃ شریف ۔ مظاہر حق ج۱ ص ۴۱)
لہذا نشست و بر خاست اور بوقتِ مصیبت یا اللہ کہہ کر اپنے خالق و مالک اور رزاق کو ( جس کی شان ’’على كل شيءٍ قدیراً‘‘ اور ’’ بكل شيءٍ علیم‘‘ ہے ) پکار کر مدد مانگنی چاہیے۔ اور تمام حوائج اسی کی بارگاہ میں پیش کرنے چاہییں، نہ یہ کہ یارسول اللہ ، یا علی ، یا غوث کہہ کر بالاستقلال حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کو پکارے اور ان کی خدمت میں حوائج کو پیش کرے، یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے۔
حضرت محبوبِ سبحانی، غوثِ اعظم عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں :
اے مخاطب ! میں تجھ کو مخلوق کے پاس دیکھ رہا ہوں، نہ کہ خالق کے پاس! تو نفس اور مخلوق دونوں کا حق ادا کرتا ہے اور حق تعالیٰ کا حق ساقط کرتا ہے، یہ نعمتیں جن میں تو غرق ہے، تجھ کو کس نے دی ہیں؟ کیا خدا کے سوا کسی دوسرے نے دی ہیں؟
(الفتح الربانی م ۴۳ ص ۲۸۵)
نیز وہ فرماتے ہیں :
"فلاتذھبن بھمتك إلیٰ أحد من خلقه في معافاتك فذلك إشراك منك به لایملك معه في ملکهأحد شیئاً، لا ضار و لا نافع و لا جالب ولا مسقم ولا مبلي ولا معافي ولا مبري غیرہ."
ترجمہ: بلا دفع کرانے کے لیے اپنی ہمت اور اپنی توجہ کسی مخلوق کے پاس مت لے جاؤ کہ یہ خدا وند تعالیٰ کا شریک بنانا ہے۔ کوئی شخص اس کے ساتھ اس کی ملک میں سے کسی چیز کا مالک نہیں ہے، نہ نقصان و نفع پہنچانے والا ، نہ ہٹانے والا ، نہ بیمار و مبتلا کرنے والا ۔ نہ صحت و نجات دینے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں۔
(فتوح الغیب مقالہ نمبر ۵۹ ،ص۱۵۰)
اور فرماتے ہیں:
"فلیكن لك مسئول واحد و معطی واحد و ھمة وحدۃ و هو ربك عز و جل الذي نواصي الملوك بیدہ و قلوب الخلق بیده التي هي أمراء الأجساد."
پس چاہیے کہ تمہارا مسئول (جس سے تم مانگو) وہ واحد ہو، عطا کرنے والا واحد ہو، ہمت اور توجہ واحد ہو (پراگندہ نہ ہو ) اور وہ تیرا رب ہے (عزوجل) وہ رب کہ تمام بادشاہوں کے پیشانی کے بال اس کے دست قدرت میں ہیں۔ تمام مخلوق کے دل جو جسموں کے حاکم ہوتے ہیں اس کے قبضہ میں ہیں۔
(فتوح الغیب مقالہ ص ۵۸)
خلاصہ یہ کہ خدا کے سوا کسی اور کے لیے چاہے نبی ہو یا ولی ، حاظر و ناظر اور حاجت روا ہونے کا عقیدہ بالکل غلط اور باطل ہے اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ حاظر و ناظر صرف خدا کی ذات ہے۔
مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں :
’’حق سبحانہ و تعالیٰ بر احوال جزوی وکلی او مطلع ست و حاضر و ناظر ! شرم باید کرد!"
یعنی خدا وند قدوس بندوں کے تمام جزوی و کلی امور پر خبردار اور مطلع اور حاضر و ناظر ہیں! اس کے علاوہ کئی اور کے تصور سے ہمیں شرم کرنی چاہیے۔‘‘
(مکتوب نمبر ۷۸ ج ۱ ص ۱۰۰)
’’ علی کل شيءٍ قدیر ‘‘ اور ’’ بکل شيءٍ محیط‘‘ ’’ حاضر و ناظر ‘‘ وغیرہ صرف اللہ پاک کے اوصاف ہیں ان میں کوئی شریک نہیں ۔
حضرت شاہ ہدایت اللہ نقشبندی جے پوری ؒ فرماتے ہیں:
خدا تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے کوئی اس کی ذات و صفات اور اس کے افعال میں کسی قسم کی شرکت نہیں رکھتا۔
(معیار السلوک ص ۷)
اسی لیے حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ کے استاد سلطان العارفین حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری’’ تو شیح ‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں کہ:
بعض اشخاص وہ ہیں جو اپنے حوائج اور مصیبت کے وقت اولیاء وانبیاء کو پکارتے ہیں، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کی ارواح موجود ہیں، ہماری پکار سنتی ہیں اور ہماری ضروریات کو خوب جانتی ہیں، یہ بڑا شرک اور کھلی جہالت ہے ۔
اور ملاحسین خباح ’’ مفتاح القلوب ‘‘ میں فرماتے ہیں :
"و از کلمات کفر ست نداء کردن اموت غائبانہ بگمان آں کہ حاضر اند مثل یا رسول اللہ د یا عبدالقادر وما نندآں!"
یعنی جو بزرگ وفات پا چکے ہیں ان کو ہر جگہ حاضر و ناظر گمان کر کے غائبانہ نداء کرنا جیسے یارسول اللہ ، یا عبدالقادر وغیرہ ، یہ کلمات کفر یہ ہیں ۔
اورفتا ویٰ بزازیہ میں ہے :
"من قال: أرواح المشائخ حاضرۃ یکفر."
یعنی جو کوئی کہے کہ بزرگوں کی روحیں ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں وہ کافر ہے ۔
(ج:۳ ص: ۳۲۶ مع فتاویٰ عالمگیری )
اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ عقائدِ باطلہ کے بارے میں یہ تحریر فرماتے ہیں :
’’ انبیاء مرسلین را لوازم الوہیت از علم غیب و شنیدن فریاد ہر کس و ہر جا قدرت بر جمع مقدورات ثابت کنند۔‘‘
انبیاء اور رسولوں کے لیے لوازمِ الوہیت جیسے کہ عالم الغیب ہونا اور ہر جگہ سے ہر ایک کی فریاد سننا اور تمام مقدورات پر قدرت ثابت کرنا الخ (یہ عقیدہ باطل ہے )۔
(تفسیر فتح العزیز سورۂ بقرہ ص ۵۲)
بریلوی خیالات کے ایک بڑے عالم بھی مذکورہ بالا عقیدہ کے بارے میں واضح الفاظ میں فرماتے ہیں :
"ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سب جا (ہر جگہ) حاضر و ناظر بجز خدائے عز اسمہ ‘ کے کوئی نہیں ۔"
(انور البہیہ فی الا ستعاغۃ من خیر البریہ ص ۱۲۴)
غرض یہ کہ یارسول اللہ ، یا غوث، وغیرہ اس عقیدہ سے کہنا کہ اللہ کی طرح یہ حضرات بھی ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں یا ہماری ہر پکار اور فریاد کو سنتے ہیں اور حاجت روا ہیں ، جائز نہیں ہے! اگر اپنا یہ عقیدہ نہ ہو ،لیکن اوروں کا عقیدہ بگڑنے کا اندیشہ ہو تب بھی جائز نہیں ہے کہ ان کے سامنے ایسے کلمات کہیں ۔ والله اعلم بالصواب۔ وعلمہ اتم واحکم !"
( ۲ / ۱۰۹ - ۱۱۲، بعنوان: یا رسول اللہ کہنا کیسا ہے؟)
اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم لابن تيمية میں ہے:
"وقوله: " يا محمد يا نبي الله " هذا وأمثاله نداء يطلب به استحضار المنادى في القلب، فيخاطب الشهود بالقلب: كما يقول المصلي: " السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته " والإنسان يفعل مثل هذا كثيرا، يخاطب من يتصوره في نفسه، وإن لم يكن في الخارج من يسمع الخطاب."
( فصل في مقامات الأنبياء وحكم قصدها، التوسل إلى الله بالأعمال الصالحة، ٢ / ٣١٩، ط: دار عالم الكتب، بيروت، لبنان)
تفسیر روح المعانی میں ہے:
"الثاني أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد."
( سورة المائد رقم الأية ٣٥، ٣ / ٢٩٧ - ٢٩٨، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)
التوسل انواعه و احكامه للالباني میں ہے:
"وقال القاضي حميد الدين ناكوري الهندي في "التوشيح": منهم الذين يدعون الأنبياء والأولياء عند الحوائج والمصائب بإعتقاد أن أرواحهم حاضرة تسمع النداء وتعلم الحوائج، وذلك شرك قبيح وجهل صريح."
( الفصل الرابع، الشبهة الثالثة، ص: ١٢٥، ط: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع - الرياض )
تيسير العزيز الحميد في شرح كتاب التوحيد الذى هو حق الله على العبيدمیں ہے:
"الثاني. أنه دعاه وناداه بالتضرع وإظهار الفاقة والاضطرار إليه، وسأل منه هذه المطالب التي لا تُطْلَبُ إلا من الله، وذلك هو الشرك في الإلهية."
( باب من الشرك أن يستغيث بغير الله أو يدعو غيره، ص: ١٨٢، ط: المكتب الاسلامي، بيروت، دمشق)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201034
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن