1 : میاں بیوی کی میسج پر بات چیت چل رہی تھی تو بیوی نے بولا "مجھ پر پابندی نہیں لگائیں"تو اس کے جواب میں شوہر نے لکھا کہ "آپ میری طرف سے آزاد ہیں، جہاں جائیں، گھر جائیں، جو چاہیں کھائیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں"۔ ان الفاظ کی ادائیگی کے وقت شوہر کے ذہن میں دور دور تک طلاق کا تصور نہیں تھا، صرف اسے خوش کرنے کے لیے کہا تھا، کیا حکم ہے؟
2 : اپنی بیوی کو بات سمجھانے کے لیے میں نے قرآن اٹھایا اور کوئی جھوٹ نہیں بولا، کیا اس کا کوئی کفارہ ہے؟
3 : وہ کہتی ہے کہ میں اپنے گھر والوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں، حال آں کہ ایسا نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے دل میں بس باتیں رکھی ہوئی ہیں اور وہ سمجھتی نہیں ہے میری بات، میں الگ نہیں رکھ سکتا اس کو، میں کیا کروں؟
1۔صورتِ مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، آپ کا نکاح بدستور برقرار ہے، تاہم "تم آزاد ہو" یا اس طرح کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں۔
امداد الاحکام میں ہے :
"… میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر، اور وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آوے ، ان استعمالات میں ہرگزکوئی شخص محض مادہ آزاد کی وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا، بلکہ اباحتِ فعل وتخییر وغیرہ پر محمول کرےگا…"تم بھی آزاد ہو اور وہ بھی آزاد ہے جب چاہے آؤ" اس میں "جب چاہے آؤ" یہ قرینہ نفی ارادۂ طلاق کا ہے۔"
(۲/۴۷۰، مکتبہ دار العلوم کراچی)
2 : مذکورہ عمل سے آپ گناہ گار نہیں ہوئے؛ لہذا اس کا کوئی کفارہ بھی نہیں ہے۔
3 : مسئولہ صورت میں آپ کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی بیوی کو ایسی رہائش فراہم کریں جس میں وہ خود مختار ہو، کسی اور کا عمل دخل نہ ہو، تاہم شریعتِ مطہرہ نے شوہر کی حیثیت کی رعایت رکھی ہے کہ اپنی حیثیت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ہے، اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر دے یا شوہر استطاعت رکھتاہے لیکن بیوی متوسط یا عام خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو کم از کم ایک ایسا جدا مستقل کمرہ دینا ہوگا جس کا بیت الخلا، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اورعورت کی ضروریات کوکافی ہوجائے ،جس میں وہ اپنامال واسباب تالالگاکررکھ سکے، کسی اورکی اس میں دخل اندازی نہ ہو۔اوراگرشوہرزیادہ مال دار ہے اور اس کی استطاعت ہے کہ وہ مستقل طورپر علیحدہ گھر کا انتظام کرے اور بیوی بھی شریف اور اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو بیوی کو الگ گھر کے مطالبے کا حق ہوگا، لیکن شوہر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر درمیانے درجے کے گھر کا انتظام لازم ہوگا؛ لہذا ایسی صورت میں (یعنی الگ رہائش یا کمرے کا مطالبہ کرے تو) بیوی کا مطالبہ غیر شرعی نہ ہونے کی وجہ سے آپ پر شرعاً لازم ہوگا کہ آپ اسے اپنی حیثیت کے مطابق الگ رہائش فراہم کریں۔
جدا رہائش (خواہ علیحدہ کمرے کی صورت میں ہو یا جدا مکان) مالکانہ حقوق کے ساتھ دینا بھی شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہے، بلکہ اگرشوہر نے کرائے یاعاریت کے مکان میں بھی یہ سہولیات بہم پہنچادیں تو عورت مزید مطالبہ نہیں کرسکتی،نیزشوہرجہاں بھی مناسب انتظام کردے عورت کے حق کی ادائیگی ہوجائے گی کسی خاص علاقے یا خاص معیار کے گھر کے مطالبے کا بیوی کو حق نہیں ہوگا۔
باقی اگر آپ بیوی کے حقوق کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ والدین اور بہن بھائیوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، تو ان شاء اللہ اس پر آپ کواجر ملے گا، بیوی کا اس موقع پر یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اپنے گھروالوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ہاں اگر آپ بیوی کو رات میں وقت نہیں دیتے، اس کی خبرگیری نہیں رکھتے، اس کے کھانے پینے، لباس پوشاک اور رہائش وغیرہ کا خیال نہیں رکھتے، جب کہ اپنے گھروالوں کا خیال رکھتے ہیں تو پھر اس کا شکوہ درست ہے، بیوی کے حقوق کا مطلب والدین اور بہن بھائیوں کی حق تلفی نہیں ہے، اور والدین کے حقوق کا مطلب بیوی کی حق تلفی نہیں ہے، دونوں کے حقوق اعتدال کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے، اگر مالی استطاعت نہ ہو تو والدین کے ساتھ اَدب اور اچھے اخلاق سے پیش آنا، صلہ رحمی کرتے رہنا ، جسمانی خدمت کی ضرورت ہو تو ان کی جسمانی خدمت کرنا اور حتی الوسع اچھا سلوک رکھنا یہی کی خدمت ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 599):
"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) سوى طفله الذي لا يفهم الجماع وأمته وأم ولده (وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية. وفي البحر عن الخانية: يشترط أن لا يكون في الدار أحد -من أحماء الزوج يؤذيها.
(قوله: بقدر حالهما) أي في اليسار والإعسار، فليس مسكن الأغنياء كمسكن الفقراء كما في البحر؛ لكن إذا كان أحدهما غنيا والآخر فقيرا؛ فقد مر أنه يجب لها في الطعام والكسوة الوسط، ويخاطب بقدر وسعه والباقي دين عليه إلى الميسرة، فانظر هل يتأتى ذلك هنا (قوله: وبيت منفرد) أي ما يبات فيه؛ وهو محل منفرد معين قهستاني. والظاهر أن المراد بالمنفرد ما كان مختصا بها ليس فيه ما يشاركها به أحد من أهل الدار (قوله: له غلق) بالتحريك: ما يغلق ويفتح بالمفتاح قهستاني. (قوله: زاد في الاختيار والعيني) ومثله في الزيلعي، وأقره في الفتح بعدما نقل عن القاضي الإمام أنه إذا كان له غلق يخصه وكان الخلاء مشتركا ليس لها أن تطالبه بمسكن آخر (قوله: ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا (قوله: لحصول المقصود) هو أنها على متاعها؛ وعدم ما يمنعها من المعاشرة مع زوجها والاستمتاع (قوله: وفي البحر عن الخانية إلخ) عبارة الخانية: فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لها أن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها. اهـ.
قال المصنف في شرحه: فهم شيخنا أن قوله ثمة أشار للدار لا البيت؛ لكن في البزازية: أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر. اهـ فضمير فيه راجع للبيت لا الدار وهو الظاهر، لكن ينبغي أن يكون الحكم كذلك فيما إذا كان في الدار من الأحماء من يؤذيها وإن لم يدل عليه كلام البزازي. اهـ قلت: وفي البدائع: ولو أراد أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأمه وأخته وبنته فأبت فعليه أن يسكنها في منزل منفرد؛ لأن إباءها دليل الأذى والضرر ولأنه محتاج إلى جماعها ومعاشرتها في أي وقت يتفق لا يمكن ذلك مع ثالث؛ حتى لو كان في الدار بيوت وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا ليس لها أن تطالبه بآخر. اهـ فهذا صريح في أن المعتبر عدم وجدان أحد في البيت لا في الدار".
فقط واللہ اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
ساس بہو کے اختلاف میں شوہر کے لیے لائحہ عمل نیز بیوی کے لیے جدا رہائش کے مطالبے کا حکم
فتوی نمبر : 144108200372
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن