میاں بیوی کی میسج پر بات چیت چل رہی تھی تو بیوی نے بولا "مجھ پر پابندی نہیں لگائیں" تو اس کے جواب میں شوہر نے لکھا کہ "آپ میری طرف سے آزاد ہیں، جہاں جائیں، گھر جائیں، جو چاہیں کھائیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں"۔ ان الفاظ کی ادائیگی کے وقت شوہر کے ذہن میں دور دور تک طلاق کا تصور نہیں تھا، صرف اسے خوش کرنے کے لیے کہا تھا، کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، آپ کا نکاح بدستور برقرار ہے، تاہم "تم آزاد ہو" یا اس طرح کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں۔
امداد الاحکام میں ہے :
’’… میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر اور وہ آزاد ہے، جب اس کا جی چاہے آوے ، ان استعمالات میں ہرگزکوئی شخص محض مادہ آزاد کی وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا، بلکہ اباحت فعل وتخییر وغیرہ پر محمول کرےگا…"تم بھی آزاد ہو اور وہ بھی آزاد ہے جب چاہے آؤ" اس میں "جب چاہے آؤ" یہ قرینہ نفی ارادہ طلاق کا ہے‘‘۔ (۲/۴۷۰، مکتبہ دار العلوم کراچی) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200352
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن