بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اعوان کو سید میں شمار کرنا


سوال

آپ حضرات نے اعوان کو سید میں شمار کیا ہے، فرمایا کہ ان کا شجرہ نسب محمد بن حنفیہ سے ملتاہے، اس کے متعلق براہِ کرم کوئی دلیل اور اکابر کی کوئی فتاوی دکھایئے!

جواب

1- "اعوان"  خاندان کہتے ہے کہ ان  کے پاس موجود شجرہ نسب کے مطابق ان کا شجرۂ  نسب "محمد بن حنفیہ"  کے  واسطے  سے  حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے،اور اعوان برادری کے پاس اس سلسلہ میں مستند شجرہٴ نسب بھی موجود ہے، تو یہ برادری سادات سے شمار ہوگی، اس کے مطابق  ثابت النسب اعوان کے لیے اپنے نام کے ساتھ  "سید "  لگانا جائز ہے۔

2-متاخرین کے عرف میں چوں کہ "سید" کا اطلاق حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے ساتھ گویا مخصوص ہوچکا ہے، اس لیے دیگر حضرات (اعوان اور عباسیوں وغیرہ) کو  اپنے نام کے ساتھ "سید" نہیں لگانا چاہیے۔  البتہ حکم میں دونوں ایک ہیں  ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوة دینا جائز نہ ہوگا، اور نہ ہی کسی دوسری برادری کا انھیں زکوة دینا جائز ہوگا۔ 

3-   سید ہونے کے  لیے نسب میں شہرت کافی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ سید نہ ہونے پر کوئی واضح ثبوت موجود نہ ہو، لہذا اگر اس خاندان کے لوگ آباؤاجداد سے سید مشہور ہیں،  تو  سید ہونے کے لیے اتنی شہرت کافی ہے، اگرچہ ان کے پاس نسب نامہ موجود نہ ہو۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"قال (ولا يجوز ‌للشاهد ‌أن ‌يشهد ‌بشيء لم يعاينه إلا النسب والموت والنكاح والدخول وولاية القاضي فإنه يسعه أن يشهد بهذه الأشياء إذا أخبره بها من يثق به) وهذا استحسان.....(قوله ولا يجوز ‌للشاهد ‌أن ‌يشهد ‌بشيء لم يعاينه) أي لم يقطع به من جهة المعاينة بالعين أو السماع إلا في النسب والموت والنكاح والدخول وولاية القاضي فإنه يسعه أن يشهد بهذه الأمور إذا أخبره بها من يثق به من رجلين عدلين أو رجل وامرأتين....‌وفي ‌الفصول ‌عن ‌شهادات ‌المحيط في النسب أن يسمع أنه فلان بن فلان من جماعة لا يتصور تواطؤهم على الكذب عند أبي حنيفة، وعندهما إذا أخبره عدلان أنه ابن فلان تحل الشهادة، وأبو بكر الإسكاف كان يفتي بقولهما وهو اختيار النسفي".

(كتاب الشهادات،فصل ما يتحمله الشاهد على ضربين،ج:7،ص:288،ط:دار الفكر، لبنان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا یدفع إلی بني ھاشم وھم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب کذا فی الھدایة، ویجوز الدفع إلی من عداھم کذریة أبي لھب ؛ لأنھم لم یناصروا النبي صلی اللہ علیہ وسلم کذا فی السراج الوھاج".

(کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف،ج:1،ص:189، ط: المکتبة الحقانیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں