بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ علیہ السلام کا تراویح کے لیے تشریف نہ لانا


سوال

 آپ کے ایک فتوی کے مطابق جب رسول اللہ نے تین دن تک تراویح پڑھنےکے بعد اسے منع کر دیا تھا، تو ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم کے خلاف کیوں اسے پڑھ رہے ہیں؟ دوسرا   آپ نے لکھا ہےکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں نماز تراویح ادا نہیں کی گئی ،تو یہ بھی بتائیے کیا چاروں خلفاء  کے بارے میں یہ کہنا کہ خلفاء اربعہ کے زمانے میں  جماعت سے نماز تراویح  ہوتی تھی ،صحیح ہے؟ 

جواب

واضح  رہے کہ آپ  علیہ السلام نے تراویح کی نماز سے  منع نہیں کیا،بلکہ چاہت کے باوجوداپنے تشریف نہ لانے  کی یہ وجہ بیان فرمائی تھی  کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے،  لیکن بعدمیں جب فرضیت کا احتمال  نہیں رہا ،تو صحابہ کرام  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خواہش اور منشا  کے مطابق تراویح کی سنت کااحیاء  فرما یا ،صحابہ کرام رضی اللہ  عنہم اجمعین اور پھر خصوصا خلفاء راشدین  کا عمل بھی امت کے  لیے حجت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"2676 - حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا بقية بن الوليد، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، عن عبد الرحمن بن عمرو السلمي، عن العرباض بن سارية، قال: وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بعد صلاة الغداة موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال رجل: إن هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا يا رسول الله؟ قال: «أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة، وإن عبد حبشي، فإنه من يعش منكم يرى اختلافا كثيرا، وإياكم ومحدثات الأمور فإنها ضلالة فمن أدرك ذلك منكم فعليه بسنتي ‌وسنة ‌الخلفاء ‌الراشدين ‌المهديين، ‌عضوا ‌عليها بالنواجذ»: «هذا حديث حسن صحيح."

(سنن الترمذی ابواب العلم،باب ما جاء فی الأخذ باالسنۃ،5/44،ط،شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي،مصر)

ترجمہ"عرباص بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فجر کی نماز کے بعد ہمارے سامنے وعظ کیااور ایسا مؤثر وعظ کیاکہ اس سے آنسوں بہ پڑےاور اس سے دل دہل گئے،پس ایک شخص نے کہا :یہ وعظ رخصت کرنے والے کی وعظ کی طرح ہےپس اے اللہ کے رسول  !آپ ہم سے کیا عہد وپیمان لینا چاہتے ہیں؟آپ نے فرمایا تم کو اللہ سے ڈرنے کی تاکید کر تاہو،اور حاکم کی بات سننے اور ماننے کی تاکید کرتا ہو،اگر چہ وہ حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو،کیوکہ جو تم مین سے دیر تک ذندہ رہے گا،وہ بہت سے اختلافات دیکھے گااور تم دین میں نئی باتوں سے بچو،اس لئے کہ گمراہی ہے،پس جو شخص تم میں سے وہ بدعات پائےتو لازم پکڑے میرا طریقہ اور میرے راہ یاب ہدایت مآب جانشینوں کا طریقہ اس کو داڑھوں سے مظبوط پکڑو!"

(تحفۃ الألمعی،6/450،زم زم پبلشر)

لہذا امت کا تراویح کی نماز پڑھناآپ صلی اللہ علیہ کے حکم کے خلاف نہیں ،بلکہ  آپ کی منشا  کے عین مطابق ہے،اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں تراویح مسجد میں  جماعت کے ساتھ نہیں ہوتی  تھی  ،البتہ  صحابہ کرام انفرادی طور پر ادا کیا کرتے تھے،لہذا یہ کہنا کہ تراویح  چاروں خلفاء کے زمانے  میں ہوتی تھی ،درست ہے ۔

 موطّا امام مالک میں ہے:

"حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: كان يرغب في قيام رمضان من غير أن يأمر بعزيمة، فيقول: ‌من ‌قام ‌رمضان ‌إيمانا ‌واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه."

(باب الترغیب فی الصلوٰۃ فی رمضان،108/1،ط،مؤسسة  الرسالة بیروت)

التمہید لإبن عبد البر میں ہے:

"مالك، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرغب في قيام رمضان من غير أن يأمر بعزيمة، فيقول: "‌من ‌قام ‌رمضان ‌إيمانا ‌واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه". قال ابن شهالب: فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك، ثم كان الأمر على ذلك في خلافة أبي بكر، وصدرا من خلافة عمر بن الخطاب.

اختلف الرواة عن مالك في إسناد هذا الحديث؛ فأما يحيى فرواه هكذا بهذا الإسناد ومتصلا  و أخبرنا علي بن إبراهيم، قال: حدثنا الحسن بن رشيق، قال: حدثنا ابن طاهر، قال: حدثنا أحمد بن عبد الله بن الوليد بن سوار، قال: حدثنا الحارث بن مسكين، قال: حدثنا عبد الرحمن بن القاسم، قال: حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرغب في قيام رمضان من غير أن يأمر بعزيمة، فيقول: "من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه". لم يذكر قول ابن شهاب."

(کتاب الصلوٰۃ،باب الترغیب فی الصلوٰۃ فی رمضان،5/99،ط،مؤسسۃ الفرقان للتراث الإسلامی)

شامی میں ہے:

"(قوله لمواظبة الخلفاء الراشدين) أي أكثرهم لأن المواظبة عليها وقعت في أثناء خلافة عمر رضي الله عنه، ووافقه على ذلك عامة الصحابة ومن بعدهم إلى يومنا هذا بلا نكير، وكيف  لا وقد ثبت عنه صلى الله عليه وسلم «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ» كما رواه أبو داود بحر."

(کتاب الصلوٰۃ ،باب الوتروالنوافل،2/44،ط،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں