بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن تجارت کاحکم


سوال

آن لائن تجارت  سے پیسے کمانا حلال ہے یا حرام؟

جواب

واضح رہے کہ آن لائن تجارت نہ تو مطلقاً ناجائز ہے اور نہ مطلقاً جائز بلکہ اس کی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض ناجائز ہیں :

آن لائن تجارت میں اگر "مبیع" (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں "مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنی ہو اس کا شرعاًبائع کی ملکیت میں ہونا  ضروری  ہے۔

اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔ بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہوگا۔

2۔ آن لائن کام کرنے والا کسی سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے  سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔ یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔

3۔ اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب "مبیع" خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔

حدیث میں ہے :

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك ."

(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:۵،ص:۳۶۲،دارالرسالۃ العالمیۃ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."

(باب المنہی عنہا من البیوع،ج:۵،ص:۱۹۳۷،دارالفکر)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :

"وأما نهيه عن بيع ما لم يقبض يعني في المنقولات، وأما نهيه عن بيع ما ليس عنده فهو أن يبيع ما ليس في ملكه، ثم ملكه بوجه من الوجوه فإنه لا يجوز إلا في السلم فإنه رخص فيه."

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:۱،ص:۲۰۳،المطبعۃ الخیریۃ)

بدائع الصنائع میں ہے :

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح ‌بيعه ‌قبل ‌القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع،باب فی شرائط الصحۃ فی البیوع،ج:۵،ص:۱۸۰،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں