مجھے آن لائن ٹریڈنگ ( کاروبار)کے بارے میں راہنمائی کریں کہ کس طریقہ سے حلال ہے اور کس طریقہ سے حرام ہے؟
آن لائن کاروبار کرنے کی بہت سی صورتیں ہیں اور مرور ِزمانہ کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،اس لیے آن لائن کاروبار کی تمام اقسام کا احاطہ مشکل ہے، البتہ شریعت ِ مطہَّرہ نے خریدوفروخت اور تجارت کے ضابطے اور شرائط بیان کردیے ہیں ؛لہذاجو آن لائن تجارتیں اُن ضوابط و شرائط پر پورے پورے اتر تے ہوں،وہ شرعی نقطۂ نظر سے جائز ہیں اور جن تجارتوں میں ان ضابطوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہو،وہ جائز نہیں ہیں۔
آن لائن کاروبار کے بارے میں اصولی طور پر درج ذیل چند شرعی ضابطے ہیں:
1۔آن لائن کاروبار میں بیچنے کے لیے جس مطلوبہ شے کا اشتہار یا تصویر دی جارہی ہو، وہ حقیقۃ ً بیچنے والے کی ملکیت ہو ،اگر وہ مطلوبہ شے بیچنے والے کی ملکیت نہ ہو،لیکن مالک کی طرح کا سودا کرتا ہو،تو یہ جائز نہیں ہے،البتہ اگر وہ مطلوبہ شے کے بارے میں کسٹمرز سے یہ کہتے ہو ئے کہ" یہ مطلوبہ شے میری ملکیت میں نہیں ہے، میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں،اگر آپ راضی ہیں، تو میں یہ سامان خرید کر اپنے قبضہ میں لے کر آپ پر بیچ دوں گا" وعدۂ بیع کرلے اور پھر وعدہ کےمطابق اس کو بیچ دے تو جائز ہو گا۔
2۔مطلوبہ شے کی مکمل تفصلات سے کسٹمرز کو آگاہ کیا گیاہو۔
3۔حرام اشیاء کی خرید وفروخت نہ ہو۔
4۔کسی قسم کا سودی معاملہ نہ ہو۔ مثلاً فروخت کی گئی چیز کی قیمت وصول کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہ کیا جائے، کیوں کہ اس میں ایک تو سود دینے پر رضامندی کا معاہدہ ہوتا ہے اور یہ گناہ ہے، دوسرا یہ کہ بروقت ادائیگی نہ ہونے پر سود ادا کرنا لازم ہوتا ہے، بلکہ اس کی جگہ ڈیبٹ کارڈ یا کیش آن ڈیلوری کے طریقے کو استعمال کیا جائے۔
5۔ دھوکہ اور خیانت سے پاک ہو۔
6۔ مطلوبہ شے بیچتے وقت کوئی شرط فاسد (یعنی ایسی شرط جس کی وجہ سے مبیع یا ثمن میں ملکیت ثابت نہ ہوسکے یا جس میں بائع ومشتری کا کوئی فائدہ ہو) نہ لگائی گئی ہو۔
7۔ اشتہار میں جاندار کی تصاویر نہ ہوں۔
8۔ جو چیزیں بیچی جارہی ہو،وہ سونا چاندی کے قبیل سے نہ ہو، کیوں کہ سونا چاندی کی بیع کے لیے ایک ہی مجلس میں ہاتھ در ہاتھ معاملہ کا ہونا ضروری ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، أنه سمع عائشة، تقول: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سترت سهوةً لي بقرام فيه تماثيل، فلما رآه هتكه وتلون وجهه، وقال: يا عائشة: "أشدّ الناس عذاباً عند الله يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله"، قالت عائشة: فقطعناه، فجعلنا منه وسادةً أو وسادتين."
(كتاب اللباس، باب تحريم تصوير صورة الحيوان، ج: 3، ص: 1668، رقم: 2107، ط: دار إحياء التراث العربي)
" ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں نے ایک طاق یا مچان کو اپنے ایک پردے سے ڈھانکا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو اس کو پھاڑ ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی مخلوق کی شکل بناتے ہیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے اس کو کاٹ کر ایک تکیہ بنایا یا دو تکیے بنائے"۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) أن يكون المبيع معلوماً وثمنه معلوماً علماً يمنع من المنازعة."
(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيع، ج: 5،ص: 156، ط: دار الكتب العلمية)
وفيه ايضاً:
" «ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر»."
(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيع، ج: 5،ص: 163، ط: دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."
(کتاب البيع، ج: 5، ص: 328، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز."
(كتاب البيوع، باب الربا، ج: 5، 179، ط: سعيد)
وفيه أيضاً:
" في الدر: (بطل بيع ما ليس بمال) والمال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع درر.
وفي الرد: (قوله بطل بيع ما ليس بمال) أي ما ليس بمال في سائر الأديان."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 50، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101717
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن