بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن ایپ (مرکزایپ/ ذریعہ ایپ) کے ذریعہ سامان کی خرید وفروخت کرنا اور اس میں خیارِ عیب اور خیارِ رؤیت کا حکم


سوال

آج کل پاکستان میں دوایپز (مزکز ایپ/ ذریعہ ایپ) پر آن لائن کاروبار ہوتاہے جس پر کپڑے ،شوز،موبائل کاسامان اورگھریلوی سامان بھی سیل ہوتاہے تو کیا اس پر کام کرناجائزہے کہ نہیں اس میں اگر سامان خراب مل جائے کسٹمر کو تو واپس بھی کرسکتاہے سات دن کے اندر یعنی مشتری کو خیاررؤیت حاصل ہوتاہے بغیر کسی نقصان کے، ہربندہ کوصرف پراڈکٹ ملتاہے کبھی کبھار بونس بھی ملتے جیساکہ چودہ اگست یا کوئی اورایسی دن۔

جواب

واضح رہے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہے،اگر کوئی چیز بائع کی ملکیت ہی میں نہ ہو تو اس کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

 صورت مسئولہ میں ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ ایپز سے آن لائن کاروبار کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کی تصویر/اشتہار کو اپنا نفع شامل کرکے  آگے شیئر کیا جاتا ہے اور جب کوئی اس  چیز کو خریدتا ہے یا خریدنا چاہتا ہےتو متعلقہ شخص  مرکز ایپ سے مذکورہ آرڈر بمع ایڈریس بھیجدیتے ہیں پھر مرکز ایپ آگے خریدار کو مطلوبہ چیز ڈیلیور کردیتے ہیں،تو اس صورت میں مبیع(جو چیز فروخت کی گئی ہے) فروخت کرتے وقت چونکہ متعلقہ شخص کی ملکیت میں نہیں ہوتی ہے اس لیے اس طریقہ کار کے مطابق مرکز ایپ کے ذریعہ آن لائن تجارت  کرنا اور اس پر نفع کمانا(حدیث میں ممانعت کی وجہ سے) شرعا جائز نہیں ہے۔

البتہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ  جب آرڈر ملے تو متعلقہ شخص خریدار سے سودا کرنے کے بجائے یوں کہہ دیا کریں کہ یہ سامان اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں،پھر اگر وہ اس پر آمادہ ہوتا ہے تو مرکز ایپ سے وہ چیز خرید کر اپنے قبضے میں لینے کے بعد خریدار کو خود ڈیلور کریں یا ان کے ذریعے ڈیلور کریں یعنی متعلقہ شخص یا اس  کا کوئی وکیل اس چیز کو خرید کر اپنے  قبضہ میں لےاس کے بعد خریدار سے باقاعدہ سودا کرکے اس کی جانب ڈیلور کردے،تو شرعا یہ صورت جائز ہے، نیز اس صورت میں خریدار کو کسی عیب کی بناء پر مذکورہ چیز کو واپس کرنے کا حق بھی حاصل ہوگا، اسی طرح مذکورہ چیز کو تصویر وغیرہ میں دیکھنے کے باوجود کسٹمر کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، اور دیکھنے کے بعد پسند نہ آنے کی صورت میں واپسی کا بھی حق ہوگا، البتہ واپس کرنے کی صورت میں خرچہ مشتری پر ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے مرکز ایپ کے ساتھ متعلقہ شخص بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کریں،اس طور پر کہ وہ اشیاء کی تصاویر شیئر کرتے وقت اور آڈر لیتے  وقت اس بات کی وضاحت کردیں کہ ہم   آپ  کی چیز  فروخت کریں گے،فروخت شدہ  چیز کی اصل قیمت مثلا:ہزار روپے ہے اوراس  میں ہماری محنت کی  اجرت مثلا:ایک سو روپے ہوگی  وغیرہ،تو اس طرح  اجرت طے کرنا بھی شرعا جائز ہے۔

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وكذا بيع ما ليس عند الإنسان لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك»، وكذا بيع ما لم يقبضه البائع لورود النهي عن ذلك..."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج4،ص43،ط؛دار الکتاب الاسلامی)

فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرة...

ولو رأى ما اشتراه من وراء زجاجة أو في مرآة أو كان المبيع على شفا حوض فنظره في الماء فليس ذلك برؤية وهو على خياره كذا في السراج الوهاج".

(کتاب البیوع، الباب السابع في خيار الرؤية وفيه ثلاثة فصول، الفصل الأول في كيفية ثبوت الخيار وأحكامه، ج:3، ص:57، ط: رشیدیۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومؤنة رد المبيع بعيب أو بخيار شرط أو رؤية على المشتري، ولو شرى متاعا وحمله إلى موضع فله رده بعيب ورؤية لو رده إلى موضع العقد وإلا فلا. اهـ".

(کتاب البیع، باب الخیار، ج:4، ص:594، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں