بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عامل سے مفرور بچہ کے احوال دریافت کرنے کا حکم


سوال

گھر سے مفرور بچے کا کسی عامل وغیرہ سے پوچھنا آیا کہ کس حال میں ہے، کس جگہ ہے اور واپس کب تک لوٹے گا کیا یہ پوچھنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالی کی ذات کو ہی ہر چیز کا علم ہے ، کون سی چیز فی الوقت کہاں ہے، کس حال میں ہے اور کب لوٹ کر آئے گی، ان سب کا علم اللہ تعالی کی ذات کوہے۔ جو لوگ مستقبل بھی باتیں معلوم ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا پھر کسی غائب چیز کے بارے میں معلومات حاصل ہونے کے دعوے  دار ہوتے  ہیں،  ایسے لوگوں کے پاس جانے اور ان سے پوچھنے کو شریعت سے سختی سے منع فرمایا ہے اور ایسے لوگوں کے پاس جانا عقیدہ کی خرابی کا ذریعہ بنتا ہے لہذا مفرور بچہ کے حالات کی معلومات اور وہ کب لوٹ کر آئے گا اس کی معلوما ت کے لیے عامل کے پاس جانا شرعا جائز نہیں ہے۔

اس کے بجائے اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا جائے اورخوب دعا مانگی جائے اور جو اسباب بچہ کی کھوج لگانے کے لیے میسر ہوں ان کو استعمال کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والكهانة) وهي تعاطي الخبر عن الكائنات في المستقبل وادعاء معرفة الأسرار. قال في نهاية الحديث: وقد كان في العرب كهنة كشق وسطيح، فمنهم من كان يزعم أن له تابعا يلقي إليه الأخبار عن الكائنات، ومنهم أنه يعرف الأمور بمقدمات يستدل بها على موافقها من كلام من يسأله أو حاله أو فعله وهذا يخصونه باسم العراف كالمدعي معرفة المسروق ونحوه، وحديث " من أتى كاهنا " يشمل العراف والمنجم. والعرب تسمي كل من يتعاطى علما دقيقا كاهنا، ومنهم من يسمي المنجم والطبيب كاهنا اهـ ابن عبد الرزاق."

(مقدمۃ، ج نمبر ۱ ص نمبر ۴۵، ایچ ایم سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن حفصة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة» ". رواه مسلم.

(العارف)، قال الجوهري: هو الكاهن والطبيب، وفي المغرب: هو المنجم، وهو المراد في الحديث ذكره بعض الشراح. قال النووي: العراف من جملة أنواع الكهان. قال الخطابي وغيره: العراف هو الذي يتعاطى معرفة مكان المسروق ومكان الضالة ونحوهما. (فسأله عن شيء) أي: على وجه التصديق بخلاف من سأله على وجه الاستهزاء أو التكذيب، وأطلق مبالغة في التنفير عنه، والجملة احتراز عمن أتاه لحاجة أخرى."

(کتاب الطب والرقی، باب الکھانة، ج نمبر7 ص نمبر: 2905،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں